موسٰی علیہ السلام کی عظیم کامیابی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 13
سوره طه / آیه 70 - 76 ۱۔ علم ،ایمان و انقلاب کا سرچشمہ ہے

موسٰی علیہ السلام کی عظیم کامیابی :


گزشتہ آیات میں ہم یہاں تک پہنچے تھے کہ موسٰی کویہ حکم دیاگیا،کہ وہ اپناعصاپھنیکیں،تاکہ جادو گررں کی کارروائیوں کاخاتمہ کردیں ۔
۔
زیربحث آیات میں بھی اسی مسئلہ کوبیان کیا جارہاہے البتہ جو جملے واضح تھے وہ حذف کردیئے گئے ہیں(یعنی موسٰی نے اپناعصاپھینکاعصاایک عظیم سانپ میں تبدل گیا اورجادوگروں کے جادوکے تمام اسباب د آلات نکل گیا ،تمام لوگوں میں ایک شورو غل بلند ہوا(فرعون سخت پریشان ہوا اور اس کے مصاحبین کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے ) ۔
جادوگر، جمہونے آج تک بھی اس قسم کامنظر نہیں دیکھا تھا اور جوجادو اور دوسری باتوں کافرق اچھی طرح پہچا نتے تھے ،انہوں نے یقین کرلیا کہ یہ کام خداکے معجزے کے سواکچھ اور نہیں ہے اور یہ شخص خداکابھیجاہواہے کہ جوانہیں کے پروردگارکی طرف دعوت دیتاہے ان کے دلوں میں ایک طوفا ن ااٹھااور ایک عظیم امقلاب انکی روح میں پھوٹ پڑا ۔
اب اس بات کاآخری حصّہ آیات کی زبان سے سنتے ہیں :
” سب کے سب جادوگر سجدے میں گر پڑے اور انہونے کہاکہ : ہم موسٰی و ہارون کے پروردگارپریمان لے آئے ہیں“ (فالقی السحرة سجدً قالو ااٰمنا برب ھارون و موسٰی ) ۔
”القٰی “ کی تعبیر (فعل مجہول سے استفادہ کرتے ہوئے ) ایسامعلوم ہوتاہے کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ،موسٰی کی طرف ایسے کھنچے اور ان کے معجزہ سے ایسامتاثر ہوئے کہ گویابے اختیار سجدے میں جاپڑے ۔
یہ نکتہ بھی توجہ قابل توجہ ہے کہ انہوں نے صرف ایمان لانے پرہی قناعت کی نہیں کی بلکہ انہونے اس بات کواپنی ذمّہ داری سمجھا ، کہ وہ موسٰی و ہارون کے پروردگار پراس ایما ن لانے کاایک واضح اور روشن صورت میں اورایسے جملوں کے ساتھ کہ جن میں کوئی کسی قسم کاابہام نہ ہویعنی پوری تاکیداکے ساتھ اظہار کریں تاکہ اگر کچھ لوگ ان کے اس کام سے متاثر ہوکرگمرہ ہوگئے ہوں تو وہ پلٹ آئیں اوراس محاظ سے کسی قسم کی جواب دہی ان کے ذمّہ باقی نہ رہے ۔
یہ بات واضح اور بد یہی ہے کہ جادوگروں کے اس عمل نے فرعون کے پیکر اوراس کی جابر،خود سراور ظالم حکومت پرایک ضرب کاری لگائی اور اس کے تمام ارکان کو ہلاکے رکھ دیا ۔
سارے ملک مصر میں اس مسئلے کے بارے میں مدّتوں پروپیگنڈاہوتارہاتھااور اس جادوگر وں کوہرگوشہ و کنارسے اکھٹاکیاگیاتھااورا ن کے لیے کامیابی کی صورت میںطرح طرح کے انعامات اور اعزاز ات کاوعدہ کیاگیاتھا ۔
لیکن اب وہ یہ دیکھ رہاہے کہ جولوگ مقابلہ کے لیے صف اوّل میں کھڑے تھے وہی ایک دم دشمن کے آگے جھک گئے اور نہ صرف یہ کہ وہ سرتسلیم خم کر چکے ہیں بلکہ وہ تو بڑ ی سختی کے ساتھ اس کادفاع کرنے لگے اور یہ ایک ایسامسئلہ تھا کہ جس کے بارے میںفرعون سوچ بھی نہیں سکتاتھااور بلاشک و شبہ لوگوں میں سے بھی ایک گروہ جادوگروں کی پیروی کرتے ہوئے موسٰی او ر ان کے دین سے وابستہ ہوگیاتھا ۔
لہذا فرعون کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھاکہ شورو غل اور سخت اور غلیظ قسم کی دھمکیوں کے ساتھ ،اپنی رہی سہی حیثیت کو بچائے جادوگرروں کی طرف رخ کرتے ہوئے اس نے کہا : کیاتم میری اجازت کے بغیر ہی اس پر ایمان لے آئے ہو ( قال امنتم لہ قبل ان اٰذان لکم ) ۔
یہ جابر مستکبر ، نہ صراس بات کامدعی تھا ، کہ اس کی لوگوں کے جسم و جان پر حکومت ہے بلکہ وہ یہ کہناچہاتاتھاکہ تمہارے دل بھی میرے ہی قبضہ و اختیار میں ہیں اور مجھ ہی سے تعلق رکھتے ہیں لہذا تمہارے دل کااراد ہ بھی میری اجازت کے ماتحت ہوناچاہیئے یہ وہی کام ہے جو ہرزمانے میں اور ہر عصر کے فرعون آپناتے ہیں ۔
ا ن میں سے بعض توفرعون مصرکی طرح ، پریشانی کے وقت کھلم کھلا،اپنی زبان سے کہہ دیتے ہیں اور بعض پر اسرار طریقے سے فرائع ابلاغ اور ربط اجتماع سے استفادہ کرکے اور مختلف قسم کے سنسرلگاکر ،عمل طورپر اپنے لیے اس حق کے قائل ہیں،اور ان کا نظریہ یہ ہے کہ لوگوں کو آزادانہ طورپر سوچنے کی اجازت نہیں دیناچاہیئے ،بلکہ کبھی کبھی توآزاد ی فکرکے نا م تک سے ،لوگوں کی آزادی کوسلب کرلیناچااہیئے ۔
بہر حال فرعون نے اسی بات پرقناعت نہ کی ، بلکہ فوراً جادوگروں پر ایک جملہ جست کیا،اوران پراتہام لگاتے ہوئے کہاکہ : ” یہ تمہارابڑاہے ،اسی نے تمہیں جادوسکھایاہے اور یہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت ایک سازش ہے “ : (انہ لکبیرکم الذی علمکم الحر ) ۔
بلاشک فرعون کومعلوم تھااوراسے اس بات کایقین تھاکہ جو بات وہ کہہ رہاہے جھوٹ ہے اور بنیاد ی طورپر اس قسم کی سازش کہ جومصر کو اپنی لپیٹ میں لے لے اوراس کے جاسوس ں اور خفیہ کارندوں کو خبرہی نہ ہوممکن نہیں ہے اصولی طور پر موسٰی کوفرعون نے اپنے آغوش میں پالاتھا اوراسے یہ بھی علم تھاکہ وہ مصر سے غائب رہے ہیںاگر وہ مصر کے جادوگروں سے بڑے ہوتے توہرجگہ اس عنوا ن سے مشہورہوجاتے اور یہ کوئی ایسی چیزنہیں تھی کہ جسے چھپایاجا سکتا ۔
لیکن ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جس وقت بے لگام اور خود سرلوگ اپنی نامشروع حیثیت کوخطرے میں دیکھتے ہیں تو و ہ کسی قسم کے جھوٹ اور تہمت لگانے سے باک نہیں کرتے ۔
پھر اس بات پرہی بس نہ کی بلکہ جادوگروں کونہایت سخت لہجے میں موت کی دھمکی دیتے ہوئے کہا، : ” میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں تمہارے ایک طرف زیادہ ہاتھوں کو اور دوسری طرف کے پاؤں کو قطع کردوں گااور بلند کھجور کے تنے پر تمہیں سولی چڑھادوں گاتاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ میراعذاب زیادہ دردناک اور زیادہ پائیدار ہے یاموسٰی وہارون کے خداکاعذاب “ ( فلاء قطعن اید یکم وارجلکم من خلاف ولاصلبّنکم فی فذوع النخل و لتعلمن اینااشد عذاباً وابقٰی )(۱) ۔
در حقیقت ” اینااشد عذاباً “ کاجملہ اس تہدید کی طرف اشارہ ہے کہ جوموسٰی نے پہلے کی تھی اوراس قصّے سے پہلے ہی خصوصیّت کے ساتھ جادوگروں کوسناد ی تھی کہ اگر تم خداپرجھوٹ باندھوگے تووہ تمہیں اپنے عذاب سے نیست و نابود کردے گا ۔
” من خلاف “ کی تعبیر (تمہارے ہاتھ پاؤں ایک دوسرے کے خلاف کاٹوں گا )اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دائیں ہاتھ کے ساتھ بایاں پاؤںیااس کے برعکس ۔شاید جادوگروں کے لیے اس قسم کی سزاکاانتخاب اس لیے تھاکیونکہ اس طرح سے انسان زیادہ دیرمیں مرتاہے ،یعنی خونریزی زیاد ہ سست ہوگی اور تکلیف بیشتر ہوگی علاوہ ازیں گویاوہ یہ کہناچاہتاہے کہ میں تمہارے بدن کودونوںطرف سے ناقص کردوں گا ۔
باقی رہی یہ دھمکی کہ تمہیں کھجور کے درخت پر سولی دوں گا ،تو یہ شاید اس بناء پر ہوکہ یہ درخت زیادہ اونچے اور بلند ہوتے ہیں اور نزدیک و دور سے سب لوگ اس شخص کودیکھ لیتے ہیں جواس پر لٹکایاگیاہو۔
یہ نکتہ بھی قابل ملاحظہ ہے کہ اس زمانے میں اس طرح سے سولی نہیںچڑھایاجاتاتھاجس طر ح سے ہمارے زمانے میں سولی دیاجایاہے وہ سولی کی رسّی کواس شخص کی گردن میں ،جسے سولی دینامطلوب ہوتاتھا،نہیں ڈالتے تھے بلکہ ہاتھوںیاشانوں سے باندھ دیتے تھے ،تاکہ وہ تکلیف اٹھاتارہے ۔

آئے اب دیکھتے ہیں کہ فرعون کی ان شدید دھمکیوں کے جواب میں جادوگروں نے کیاردّ عمل دکھایا ؟ وہ نہ صر ف یہ کہ مرعوب نہیں ہوئے اور اپنی جگہ سے ہلے اورمیدان سے باہر نہ نکلے بلکہ وہ میدان میں مضوطی کے سے ڈٹے رہے اور کہا : ” اس خداکی قسم کہ جس نے ہمیں پیداکیاہے ، ہمیں جوواضح دلائل میسرآئے ہیں ہم ان پرہرگز تجھے مقدم نہ رکھیں گے “ ( قالو الن نئوثر ک علی ماجائنامن البینات والذی فطرنا) ۔
”تو جوفیصلہ کرناچاہے کرلے “ : (فاقض ماانت قاض ) ۔
”لیکن یہ جان لے کہ توتوصرف اس دنیاوی زندگی کے بارے میں ہی فیصلہ کرسکتاہے : (مگر آخرت میں ہم کامیاب ہوں گے اور توشدید ترین عذاب میں مبتلاہوگا) ( انماتقضی ھذہ الحیاة الدنیا) ۔
اس طرح سے انہونے تین ، دوٹوک جملے فرعون سے کہے پہلایہ کہ تم جان لوکہ ،ہم نے جوہدایت پالی ہے ،اسے کسی چیز سے نہیں بدلیں گے دوسرے یہ کہ ہم تیری دھمکی سے کبھی بھی ہراساں نہ ہوگے  تیسرے یہ کہ تیری حکومت وفعالیت یہی چارروزہ ہے ۔
پھرانہونے مزید کہا : ” اگر تویہ دیکھ رہاہے کہ ہم اپنے پروردگار پرایمان لے آئے ہیں، تو یہ اس لیے ہے کہ تاکہ وہ ہمارے گناہوں کونخش دے “ ۔(ہم جادو اور جادوگری کی وجہ سے بہت سے گناہ ہوں کے مرتکب ہوچکے ہیں) : (انااٰمنابربنالیغفرلناخطایانا) ۔
اوراسی طرح ” وہ بڑاگناہ (یعنی رسول ِ خداکے مقابلہ میں جادوکامظاہرہ ) جس کے کرنے پرتونے مجبور کیاتھا،اللہ ہمیں معاف کرتے ہوئے اپنی رحمت میں شامل کرے او ر خداہرچیزسے بہتر اور باقی رہنے والاہے “ ( ومااکرھتماعلیہ من السحرواللہ خیروابقٰی ) ۔
مختصر یہ کہ ہمارامقصد گزشتہ گناہوں سے پاک ہوناہے ان میں سے (ایک گناہ ) خداکے سچے پیغمبرکے ساتھ مقابلہ کرنابھی ہے ہم اس طرح یہ چاہیتے ہیں کہ سعادتِ ابدی حاصل کرلیں لیکن تو ہمیں اس دنیاکی موت سے ڈرارہاہے یہ تھوڑا اساضرراس عظیم بھلائی کے مقابلہ میں ہمیں قبول ہے ۔
یہاں ایک سوال سامنے آتاہے اور وہ یہ کہ جادوگروں نے ظاہراً خوشی سے اس میدان میں قدم رکھاتھا ۔اگر چہ فرعون نے ان سے بہت سے وعدے کیے تھے۔توپھرزیربحث آیت میں” اکراہ “ (مجبورکرنا) کیوں آرہاہے ؟
اس کاجواب یہ ہے کہ کوئی دلیل ایسی نظر نہیں آتی کہ جادوگرشروع سے ہی اس دعوت کوقبول کرنے پر مجبور نہیں تھے بلکہ ” یاء توک بکل ساحرعلیم “ (مامورین جاکرہرماجادوگرکولے آئیں) (اعراف ۱۱۲ ) کے جملے کاظاہری مطلب یہ ہے کہ ہرجادوگرکے لیے اس دعوت کو قبول کرنالازمی و ضروری تھیقینافرعون کی خود سراور استبددی حکومت میںیہ کام بالکل طبعی نظر آتاہے کہ و ہ اپنی خواہشات اور ارادوں کی تکمیل کے لیے لوگوں کومجبورکرتے تھے باقی رہاان میں شوق پیداکرنے کے لیے انعام و اکرا م مقرر کرناتویہ اس بات کے منافی نہیں ہے کیونکہ ہم نے اکثر دیکھاہے کہ بے لگام ستمگر حکومتیںزوراور اطاقت کے کام لینے کے ساتھ ساتھ مادّی لالچ سے بھی استفاد ہ کرتی ہیں ۔
یہ احتمال بھی پیش کیاگیاہے کہ جادو گر جونہی حضرت موسٰی (علیه السلام) سامنے آئے کچھ قرائن سے ان پریہ واضح ہوگیاتھاکہ موسٰی (علیه السلام) حق پر ہیںیاکم از کم وہ شک و شبہ میں پڑ گئے تھے اور اسی بناء پر ان میں گومگوکی حالت پیداہوگئی تھی جیساکہ ہم نے اسی سورہ کی آیہ ۶۲ میں پڑھاہے : ”فتنازعواامرھم بینھم“
فرعو ن اوراس کے درباری اس صورت حال سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے انہیں مقابلہ جاری رکھنے پر مجبور کیا ۔
جادوگروں نے اس کے بعد اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ اگر ہم ایمان لے آئے ہیں تو اس کی دلیل واضح و روشن ہے : ” کیونکہ جو شخص بے ایما ن اورگنہگارقیامت میں خداکی بارگاہ میں حاضر ہوگا، اس کے لیے دوزخ کی جلانے والی آگ ہے : (انہ من یاء ت ربہ مجرماً فان لہ جھنم ) ۔
اور دوزخ میں سب سے بڑی مصیبت اس کے لیے یہ ہے کہ : ” اس میں نہ تو وہ مر ے گااور نہ زندہ ہوگا“ (لایموت فیھاولایحییٰ ) ۔
بلکہ وہمیشہ موت کی زندگی کی کشمکش میں رہے گاایسی زندگی کہ جوموت سے زیادہ تلخ اور تکلیف وہ ہوگی ۔
” اور جوشخص اس عظیم بارگاہ میں ایمان اور عمل صالح کے ساتھ پہنچے گا ، وہ عالی درجوں پرفائز ہوگا “ : ومن یاء مناقد عمل الصالحات فاولٰئک لھم الدرجات العلیٰ ) ۔
”ہمیشہ باقی رہنے والی جنّتیں کہ جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیںوہ ہمیشہ اس میں رہیں گے ،(جنات عدن تجری من تحتھاالانھار خالدین فیھا) ۔
” اور یہ اس شخص کی جزاہے کہ جو ایمان اور اطاعت پروردگارکے ساتھ اپنے آپ کو وپاکیزہ کرے “ (وذالک جزاء من تزکیٰ ) ۔
آخر کی تین آیات جادوگروں کی اس گفتگو کاحصّہ ہیں جوانہوں نے فرعون کے سامنے کی تھی یاخداکی طرف سے مستقل جملے ہیں کہ جویہاں ان کی گفتگوکی تکمیل کے لیے فرمائے گئے ہیںاس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے بعض انہیں جادوگروں کی گفتگوں کاآخر ی حصّہ سمجھتے ہیں اور شاید ”انہ “ سے شروع ہوناکہ جو واقعا علّت کے بیان کرنے کے لیے آتاہے ،اس نظر یہ کی تائیدکرتا ہے ۔
لیکن وہ تفصیل جو ان تینوں آیات میں،صالح مومنین اور مجرم کافروں کے مستقبل کے بارے میں بیان ئی ہیں اور ” ذٰلک جزٰ ء من تذکیٰ “ (یہ اس کی جزاہے جو پاکیزہ گی اختیار کرے ) کے جملہ پر ختم ہوتی ہے اور وہ اوصاف بھی کہ جو جنّت ا ور دوذخ کے بارے میں اس میں بیان ہوئے ہیں،دوسرے نظریہ کی تائید کتے ہیں کہ یہ خداکاکام ہے کیونکہ جادوگرایسی بات جبھی کرسکتے تھے کہ انہوں نے اس مختصر سی مدّت میں معرفت و علوم الہٰی کادافر حصّہ حاصل کر لیا ہو ، کہ جس بناء پر وہ جنّت و دوزخ اور مومنین ،مجرمین کے انجام کے بارے میں اس قسم کادوٹوک اور آگاہانہ فیصلہ کرسکیں ۔
مگر یہ کہ ہم کہیں کہ خدانے ان کے ایمان کی وجہ سے یہ پر معنی باتیں ان کی زبان پرجاری کردی تھیںاگر چہ یہ بات خدائی تربیت اور نتیجہ کے لحاظ اسے ہمارے لیے کوئی فرق نہیں ڈالتی کہ خدانے خودفرمایاہویاخداکی طرف سے تعلیم یافتہ مومنین نے خاص طورپر جبکہ قرآن اسے تائید کے لہجے میں بیان کرہاہے ۔

 


۱۔ مشہور یہ ہے کہ ”ولاصلبنکم فی جذوع النخل “ میں”فی “کالفظ ”علی “ کے معنی میں ہے یعنی تمہیں کھجور کے درخت پرسولی لٹکاؤنگا لیکن فخررازی کایہ نظر یہ ہے کہ ”فی “ یہاں پراپناہی معنی دیتاہے کیونکہ ” فی “ظرفیت کے لیے ہوتاہے اور ہر چیز کی ظرفیت اس سے مناسبت رکھتی ہے اور جانتے ہیں کہ سولی کی لکڑی اس شخص کیلئے بطورظرف استعمال ہوتی ہے کہ جسے سولی چڑ ھایاجائے ( لیکن یہ توجہیہ کچھ نظر نہیں
آتی ) ۔
سوره طه / آیه 70 - 76 ۱۔ علم ،ایمان و انقلاب کا سرچشمہ ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma