خود کو اتنا مشقت میں نہ ڈالو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 13
شان نزولسوره طه / آیه 9 - 16

خود کو اتنا مشقت میں نہ ڈالو:


اس سورہ کے آغاز میں ہمیں حروف مقطعہ کا سامنا ہے جو انسان کے احسا س جستجو کو ابھارتے ہیں ۔(طٰةٰ ) ۔
البتہ ہم نے قرآ ن کے حروف مقطعہ کی تفسیر کے بارے میں تین سورتوں کے آغاز میں کافی بحث کی ہے (۲) ۔
لیکن اس مقا م پر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس مطلب کاضافہ کریں کہ ممکن ہے کہ تما م ہی یاکم ازکم ان حروف مقطعہ میں سے کچھ ایک خاص معنی ومفہوم رکھتے ہوں ٹھیک ایک لفظ کی مانند جس کاکوئی نہ کوئی معنی و مفہوم ہوتا ہے ۔
اتفاقا ہمیں بہت سی رایات نیز اس سورہ اورسورہ یٰسنٓ کے آغاز میں ، مفسرین کے کلمات سے مطالب کاثبوت ملتا ہے کہ ” طٰہٰ“ یارجل (اے مر د ) کے معنی میں ہے کہ آغاز اسلام یاقبل ازاسلا م کے زمانے سے تعلق رکتھے ہیں (۳) ۔
اور جیسا کہ ایک باخبر شخص نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ بعض مغربی دانشوروں نے جواسلام مسائل کے سلسلے میں مطالعہ کرتے ہیں ،اس مطلب کوقرآن کے تمام حروف مقطہ کے لیے عام سمجھا جاتاہے اور ان کانظر یہ ہے کہ حروف مقطعہ ہر سورہ کی ابتدامیں ایک مستقل لفظ ہے ،اس کاایک خاص معنی ہے ان میں سے بعض نے زمانہ گزرجانے سے متروک ہوگئے ہیں اور بعض ہم تک پہنچ گئے ہیں ،ورنہ یہ بات بعید نظر آتی کہ مشرکین عرب حروف مقطعہ کو سنین اور وہ اس اکاکوئی مفہوم نہ سمجھیں پھربھی اسی کامذاق اڑائیں حالانکہ کسی تاریخ میںیہ بات نظر نہیں آتی کہ ان بدوماغ بہانہ بازوں نے حروف مقطعہ کو مذاق اڑانے کے لئے عنوان بنایاہو ۔
البتہ اس نظر یہ کوبطور کلی اور تمام حروف مقطعہ کے بارے میں قبول کرنا مشکل ہے لیکن بعض کے باررے میں قابل قبول ہے اسلامی منابع میں بھی اس کے بارے میں بحث ہوئی ہے ۔
یہ بات خاص طورپر قابل توجہ ہے کہ امام صادق علیہ اسلا م ایک حدیث میں منقو ل ہے کہ ”طٰہٰ“ پیغمبر اکرم کاایک نام اوراس کامعنی ہے :
یاطالب الحق ، الھادی الیہ
اے وہ شخص کہ جو حق کاطالب اوراس کی ہدایت کرنے والاہے ۔
اس حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ” طٰہٰ “ دورمزی حروف کامرکب ہے ” طا “ ” طالب الحق کی طرف اشارہ ہے اور “ ” ھا“ ” ھادی الیہ “ کی طرف ،ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ زمانے میں بھی اورموجود ہ زمانے میں بھی رمزی حروف ( ) اور مختصر علامات سے استفادہ ہوتا ہے رہاہے ۔خاص طور پرہمارے زمانہ میں تو اس سے بہت ہی استفادہ کیاجاتاہے ۔
ٓٓاس سلسلے میں آخری بات یہ ہے لفظ ” طٰہٰ “ نے لفظ یسٰن ٓ کی طرح زمانہ گر نے کے ساتھ ساتھ تدریجا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسم خاص کی صورت میں اختیار کرلی ہے ۔یہاں تک کہ آل پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ” اٰل طٰہٰ “ کہاجاتاہے اور حضرت مہدی علیہ اسلام کودعا ئے ندبہ میں ” یابن طٰہٰ “ سے تعبیرکیاگیاہے ۔
ا س کے بعد ارشاد ہوتاہے : ہم نے قرآن تجھ پراس لیے نازل نہیں کیاکہ تو اپنے آپ کو مشقت میں ڈال دے (ماانذلنا علیک القرآن لتثقیٰ) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ پرور دگار کی عبادت اوراس کے قرب کی جستجواس کی پرستش کے ذریعہ بہتیرن کام ہے ہرکام ایک حساب سے ہوتا ہے ۔عبادت بھی ایک حساب سے کی جاتی ہے تم خود پراتنا بوجھ نہ ڈالوکہ تمہاے پاؤ متورم ہوجائیں اور تبلیغ و جہاد کے لیے تمہای قوت میں کمی آجائے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ” تشقیٰ“ مادئہ ” شقاوت “ سے ”سعادت “ کی ضد ہے لیکن جیسا کہ ”راغب “ مفردات میں لکھا ہے کہ بعض اوقات یہ مادہ تکلیف اوردکھ کے معنی میں بھی آتا ہے اور مذکورہ بالاآیت میں یہی معنی مراد ہیں ، جیسا کہ شان نزو ل میں بھی یہی مطلب بیان ہوا ہے ۔
بعد والی آیت میں قرآن کے نازل کرنےکامقصد اس طر ح بیا ن کیاگیاہے :
ہم نے تو قرآن کو صرف ان لوگوں کی یاد آوری کے اور تذکرکے لیے نازل کیاہے کہ جو (خداسے ) ڈرتے ہیں (الاتذکرة لمن یخشیٰ ) ۔
”تذکرة “ سے تعبیرایک طرف اور ”من یخشیٰ“ دوسری طرف ایک ناقابل انکار واقفیت کی طرف اشارہ ہے تذکرہ اور یادوہانی اس بات کی نشاندہی ہے کہ تمام خدائی تعلیمان کاخمیرانسان کی روح اوراس کی فطرت میں موجود ہوتاہے اور انبیاء کی تعلیمات اسے بارآوربناتی ہیں،اس طرح سے کہ گویاوہ کسی مطلب کی ےاد وہانی کراتی ہیں ۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ انسان تمام علوم کو کوپہلے ہی سے جانتاتھا اورا ب انہیں بھول گیاہے اوراس دنیامیں تعلیم کامقصد یاد دہانی ہے (جیسا کہ افلاطون کانظر یہ بیان کیاجاتاہے) بلکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کااصلی خمیر انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہے ،(غورکیجئے گا ) ”من یخشی “ کی تعبیر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جب تک انسان میں ایک قسم کااحساس ذمّہ داری جواب دہی نہ ہوجس کانام قرآن نے ” حثیت و خوف “ رکھا ہے ، اس وقت تک حقائق کوقبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوگا کیونکہ قبول کرنے والی صلاحیّت ہرسچ کے بارآور ہونے میں بھی شرط ہے اوردر حقیقت یہ تعبیر اس چیز کے مشابہ ہے کہ جو سورہ بقرہ کی بتداء میں بیان ہوئی ہے :
ھد ی للمتقین
قرآن متقین کی ہدایت کاسبب ہے
اس کے بعد اس خدا کاتعارف کرواتا ہے کہ جوقرآن کونازل کرنے والاہے تاکہ اس کی معرفت کے ذریعے قرآن کی عظمت آشکار ہو لہذا ارشاد ہوتاہے : یہ قرآن اس کی طرف سے ناز ل ہوا ہے کہ جوزمین اور بلند آسمان کاخالق ہے (تنذل یلاممن خلق الارض والسمٰوٰ ت العلیٰ ) (۴) ۔
حقیقت میںیہ توصیف نزول قرآن کی ابتداء اور انتہاکی طرف اشارہ کررہی ہے اس انتہاز میں ہے اور ابتداء آسمان ہیں ،اس لفظ کے معنی کی وسعت کے لحاظ سے ہے اور اگر اس مقام ۔قرآ ن کی دوسری آیات کے مانند ۔لفظ ” مابینھما“ کااضافہ نہیں ہواتو شاید اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس سے اصل مقصد ابتداء و انتہاکا بیان کرناتھا ۔
بہرحال وہ خدا کہ جس کی قدرت و تدبیر اور حکمت ، آسمان و زمین کی وسعت پرمحیط ہے ، ظاہرہے کہ اگر وہ کوئی کتاب نازل کرے گاتووہ کس قدر فصیح وپرمعنی ہوگی۔
پھرقرآن کے نازل کرنے والے پروردگار کاتعارف جاری رکھتے ہوئے قرآن کہتاہے : وہ خد ارحمن ہے کہ جس کی رحمت کافیض ہرجگہ پرمحیط ہے اور وہ عرش پرمسلط ہے (الرحمن علی العرش استوٰی ) ۔
ہم نے سورہ اعراف کی آیت ۵۴ کی تفسیرمیں بیان کیاہے کہ ”عرش “ لغت میں اس چیز کوکہتے ہیں کہ جس کی چھت ہو،اور کھبی خود چھت کویابلندپایوںوالے تخت کویابادشاہوں کے تخت کوعرش کہتے ہیں ۔
حضرت سلیمان (علیه السلام) کے واقعے میں بیان ہواہے :
ایّکم یاتینی بعرشھا
تم میں سے کون اس (بلقیس ) کے تخت کومیرے پاس لاسکتاہے ۔(نمل ۔۳۸)
واضیح ہے کہ خداکا نہ توکوئی تخت ہے اور نہ ہی نوع بشرکے حکمرانوں کی طرح حکومت ،بلکہ ”عرش خدا “ سے مراد مجموعتا عالم ہستی ہے کہ جو اس کی حکومت کاتخت شمارہوتا ہے ۔اس بن پر” استوٰی علی العرش “ پروردگار کے جہان ہستی پرتسلّط اور مکمل احاطہ اور سارے عالم میں اس کی تدبیر و فرمان کے نفوذ کی طرف اشارہ ہے ۔
اصولی طور پر ؛لغت عرب میں ”عرش “ اور فارسی( اور اردو زبان ) میں ”تحت “ زیادہ ترقدرت و اقتدار کے معنی میں بولاجاتا ہے ، مثلاہم کہتے ہیں کہ انہونے فلاں شخص کوتخت سے اتار دیایعنی اس کی قدرت و اختیاراور حکومت کو ختم کردیایاعربی زبان میں کہتے ہیں (شل عرشہ ) اس کاتخت گر گیا (۵) ۔
بہرحال اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اس تعبیر سے خداکے لیے جسم ہونے کاتصور کرے تو یہ انتہائی بچگانہ بات ہوگی ۔
عالم ہستی پر خداکی ”حاکمیت “ کاذکرکرنے کے بعد اس کی ”مالکیت “ کے بارے میں بیان کیاگیاہے : جوکچھ آسمان میں ، زمین میں ،ان دونوں کے درمیان اور زمین کی گہرئیوں میں موجود ہے ، سب اسی کی ملکیت ہے  (لہ مافی السمٰوٰت ومافی الارض ومابینھماوماتحت الثریٰ) ۔
”ثریٰ“ اصل میں مرطوب مٹی کے معنی میں ہے اور چونکہ زمین کاصرف اوپر والاحصّہ سورج کی تپش اور ہواکے چلنے سے خشک ہوتا ہے لیکن اس کانچلاطبقہ زیادہ تر مرطوب اور تر ہوتاہے اس لیے طبقہ کو ”ثریٰ“ کہتے ہیں اوراس طرح ماتحت الثریٰ “ زمین کی گہرائیوں اور اس کے اندروالے حصّہ کے معنی میں ہے جوسب کا سب مالک الملک اور عالم ہستی کے خالق کی ملکیت ہے ۔
یہاں تک صفات پروردگارکے ارکان میں سے تین رکن بیان ہوئے تھے ۔پہلاخالقیت، دوسرارکن حاکمیت اور تیسرارکن اس کی ما لکیت ہے۔
بعد والی آیت میں اس کے چوتھے رکن یعنی اس کی عالیتک طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتاہے : وہ اس علمی احاط رکھتا ہے کہ اگر تو آشکاررابات کرے توبھی وہ جانتاہے اور پوشیدہ اور آہستہ طورپربات کرے تب بھی وہ جانتاہے یہاں تک کہ وہ مخفی تربات سےبھی آگاکہ ہے (وان تجھربالقول فانہ السرواخفیٰ ) ۔
اس بارے میں کہ ”اخفی “ (سراور بھیدسے زیادہ مخفی ) سے کیامراد ہے ، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔
بعض نے کہاہے کہ ” سر “ یہ ہے کہ جس انسان دوسرے سے پہناں اور مخفی طورپر بیان کرے اور ” اخفٰی“ سے مراد یہ ہے کہ جسے انسان دل میںچھپائے رکھتاہے اور کسی سے بیان نہیں کرتا ۔
بعض نے کہاہے کہ ”سر“ وہ عمل ہے کہ جسے انسان چھپ کرانجا م دیتاہے اور ” اخفی ‘ ‘ و ہ نیت ہے کہ جووہ دل،میں رکھتاہے ۔
بعض نے کہاہے ” سر“ لوگوں کے اسرار کے معنی میں ہے اور ”اخفی “ وہ اسرارہیں کہ جو خداکی پاک ذات میں ہیں ۔
ایک حدیث میں امام باقرعلیہ اسلام اور امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے :
”سر “ تو وہ ہے کہ جسے تونے دل میں چھپارکھا ہے ، اور ” اخفی “ وہ بات ہے کہ جو تیرے دل میں پیداہوئی لیکن تونے اسے بھلادیاہے ( ۶) ۔
ممکن ہے کہ یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ ہوکہ انسان جس چیز کو یاد رکھتاہے وہ حافظ کے خزانہ کے سپرد ہوجاتاہےزیادہ سے زیادہ یہ ہوتاہے کہ انسان کااس مخزن کے کسی گوشے سے رابط منقطع ہوجاتاہے اور اس پرنسیان کی حالت ظاہری ہوجاتی ہےلہذااگر کسی ذریعہ سے یاد دہانی ہوجائے تووہ اسے بالکل ایک جانی پہچانی بات سمجھتاہے اس بناپرجس بات کوانسان بھول چکاہے وہ اس کے سبب سے زیادہ مخفی اسرار میں سے ہے جوحافظ کے کسی گوشہ میں پہناں ہوگیاہے اور وقتی طورپرہمیشہ کے لیے اس کارابطہ اس سے منقطع ہوگیاہے ۔
لیکن بہرحال اس بات میں کوئی امرمانع نہیں ہے کہ وہ تمام تفسیریں جواوپر بیان کی گئی ہیں ”سر“ اور ” اخفٰی“ کے وسیع معنی میں موجود ہوں ۔
اس طرح سے پروردگار کے بے پایاںعلم کی ایک واضیح تصویرسامنے آتی ہے اور مذکورہ تالاتمام آیات سے قرآ ن کے نازل ہرنے والے کے بارے میں چارصفات یعنی ” خلقت “ ” حکموت “ ” مالکیت “ ” اور علم سے متعلق اجمالی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ بعد والی آیت میں قرآن کہتاہے : وہی اللہ وہ خداہے کہ جس کے سوااورکوئی معبود نہیں ہے اس کے لیے اچھے اچھے نام اور صفات ہیں (اللہ لاالہٰ الاھو لہ الاسمآء الحسٰنی ) ۔
جیسا کہ ہم نے (سورہ اعرف کی آیہ ۱۸۰ ) کی تفسیرمیں بیان کیاہے کہ ” اسماء حسنٰی “ کی تعبیر قرآن کی آیات میں بھی اور حدیث کی کتابوں میں بھی بارہاآئی ہے ۔یہ تعبیردراصل اچھے ناموں کے معنی میں ہے یہ بات محتاج ثبوت نہیں کہ خداکے سب ہی نا م اچھے ہیں لیکن خداکے اسماء و صفات میں سے بعض نا م کیونکہ زیادہ اہمیت رکھتے ہیں لہذا وہ اسماء حسنٰی کہلاتے ہیں ۔
بہت سی راوایات میں ہے کہ جو پیغمبراکرم اور آئمہ (علیه السلام) سے ہم تک پہنچ ہیں یہ منقول ہے کہ :
خدااکے ننانوے ۹۹ نام ہیں جوشخص اسے ان ناموں کے ساتھ پکارے گا اس کی دعاقبول ہوگی ،ایسااور جو شخص (ازروئے معرفت ) ان کااحصا ء کرلے وہ اہل بہشت میں سے ہے ۔
یہ مضمون اہل سنت کی حدیث کی معررف کتابوں میں بھی مو جود ہے ۔
ایسامعلوم ہوتاہے کہ ان ماموں کے احصاء اور شمار کرنے سے مراد ان کا ” تخلق “ یعنی انہیں اپناناہے نہ کہ صرف الفاظ کاذکر کرنا اس میں شک نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص صفاعالم وقاردر یاجہنم و غوفور وغیرہ سے ” تخلق “ پید ا کرے یعنی ان صفات کوپنالے اوران عظیم خدائی صفات کی شعاعیں اس کے وجود میں چمکنے لگیں تووہ بہشتی بھی ہے اوراس کی دعا بھی قبول ہوگی (مزید و ضاحت کے لیے اس تفسیرکی جلد۷ ص ۳۹ (اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع کریں ۔


۱۔ان روایات سے آگاہ ہی کے لیے تفسیر نوراثقلین اور تفسیر درالمنثور میں سورہ طٰہٰ کی ابتداء سے رجوع کریں ۔
۲۔ سورہ بقر ، جلد او ل آل عمران ، جلد دوم  اور اعراف جلد ششم (تفسیر نمونہ ) ۔
۳۔ تفسیرمجمع بیان زیربحث آیہ کے ذیل میں ۔
۴۔ اس بارے میں کہ ” تنذیلا“ کااعراب کے لحاظ سے کیاموقع ومحل ہے ،مفسرین کے درمیان اختلاف ہے البتہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ ایک محذوف فعل مجہول کامفعول مطلق ہے اور یہ فقرہ یوں تھا : نذل تنذیلاممن خلق الارض ۔
۵۔ تفسیرنمونہ، کی جلد ۶، ص ۱۸۰۔(اردو ترجمہ ) ۔پر بھی اس بارے میں بحث کی گئی ہے ۔
۶۔ مجمع البیان زیربحث آیت کے ذیل میں ۔
شان نزولسوره طه / آیه 9 - 16
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma