آخری مقابلے کے لیے فرعون کی تیاری

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 13
سوره طه / آیه 56 - 64 سوره طه / آیه 65 - 69

آخری مقابلے کے لیے فرعون کی تیاری :


آیات کے اس حصّے میں موسٰی (علیه السلام) اور فرعون کے مقابلہ کے ایک اور مرحلے کا بیان ہو رہاہے،قرآن مجید اس حصّے کواس جملے کے ساتھ شروع کرتاہے : ہم نے اپنی سبھی نشانیاں فرعون کو دکھائیں ،لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کے سیا ہ دل پر اثر نہ کرسکی اس نے سب کی تکذیب کی اور انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا (ولقد اریناہ اٰیاتناکلھا فکذب وابیٰ ) ۔
یقینی بات ہے کہ ان آیات سے یہاں وہ تمام معجزات مراد نہیں ہیں جو حضرت موسٰی (علیه السلام) کی پوری زندگی میں ،مصر میں ا ن سے ظاہر ہوئے بلکہ یہ ان معجزات مربوط ہے جوانہو نے ابتداء دعوت میںفرعون کودکھائے تھے یعنی ” معجز ئہ عصا“ ،” ید مضیا “ اور ”ا ن کی اآسمانی دعوت کے مطالب “ کوکہ خود ان کی حقانیت کی ایک زندہ دلیل ہے ۔
اسی لیے اس واقعے کے بعد جادوگرروں کے ساتھ حضرت موسٰی (علیه السلام) کے مقابلہ اور ان کے نئے معجزات کاذکر ہے ۔
اب آئے،دیکھتے ہیں کہ سرکش ،مستکبر اور ہٹ دھرمی فرعون نے حضرت موسٰی(علیه السلام) اور ان کے معجزات کے جواب میں کیاکیا ؟  تمام جھوٹے صاحبان اقتدار کی طرح انہیں کس طرح ۔متہم کیا؟ قرآن کہتاہے : اس نے کہا : ! اے موسٰی (علیه السلام) ! کیا تو(اس لیے ) آیاہے کہ ہمیں ہماری سرزمین اور وطن سے اپنے جادو کے ذریعے باہر نکا ل د ے : ( قال اجئتناالتخرجنامن ارضنا بسحرک یاموسٰی (علیه السلام) ) ۔
یہ اس بات کی طر ف اشارہ ہے کہ : ہم جانتے ہیں کہ دعویٰ نبوّت ، دعوت ِ توحید اور یہ معجزہ نمائی ،سب حکومت پر قبضے اور ہمیںاور قبطیوں کوہمارے آباؤ اجداد کی زمین سے نکالنے کے لیے ایک سازش ہے تیرامقصد دعوت توحید ہے اورنہ بنی اسرئیل کی نجات تیرامقصد صرف حکومت حاصل کرنا ،اس سرزمین پرتسلّط جمانا اور مخالفین کوباہرنکال دینا ہے ۔
یہ تہمت بالکل وہی حر بہ ہے جوپوری تاریخ میں ،سب صاحبان اقتدااور استعمل گر استعمال کرتے رہیں جس وقت وہ اپنے آپ کوخطرہ میں پاتے ہیں تواپنے بچاؤاور مفاد کے لیے ، لوگوں کوتحریک کرنے کے لیے ” ملک خطرہ میں ہے “ کاہوّا کھڑا کردیتے ہیں،ملک ! یعنی ان صاحبان اقتدر کی حکومت اوراس مملکت کی بقا ؟ یعنی خود ان کی اپنی بقا ۔
بعض مفسرین کانظر یہ ہے کہ اصل میں بنی اسرائیل کو مصر لانے اور ان کی اس سرزمین میں نگہداشت صر ف ان سے غلاموں کی شکل میں ان کی کا م کی طاقت سے فائدہ اٹھا نے کے لیے نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتے تھے ،کہ بنی اسر ئیل جوکہ ایک طاقتور قوم تھے ،طاقت پیداکرکے کہیںخطرے کاسبب نہ بن جائیں اس طرح ان کے لڑ کو ں کو قتل کر نے کاحکمبھی ،صرف موسٰی (علیه السلام)کے پیدا ہونے کے خوف سے نہیں تھا بلکہ وہ بھی ان کی طاقت و قوّت کو ختم کرنے کے لیے تھا اوریہ وہ کا م ہے کہ جسے تمام خود سرانجام دیتے ہیںاس بناپر موسٰی کو خوہش کے مطابق  باہر جانے کامطلب ،اس ملّت کاطاقت حاصل کرنا تھا اس صورت میں فراعنہ کاتاج و تخت خطرے میں پڑجاتاتھا ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس مختصرسی عبادت میںفرعون نے موسٰی (علیه السلام) کوجادوکی تہمت بھی دی ،وہی تہمت جو تمام انبیاء پر،ان کے واضح معجزات کے جواب میں لگائی گئی ۔
جیساکہ سورئہ ذاریات کی آیہ ۵۲ اور ۵۳ میں بیان ہوا ہے :
کذانک مااتی الذین من قبلھم من رسول الاقالو اساحراو مجنون اتوصوا بہ بل ھم قوم طاغون ۔
کوئی پیغمبر سے پہلے نہیں آیامگر یہ کہ انہوں نے کیا کہ یہ جادوگر ہے یادیوانہ ہے کیاوہ اس (تہمت و افتراء ) کی ایک دوسرے کو وصیت کرجایاکرتے تھے (کہ وہ سب اس میں ہم آواز تھے ) بلکہ وہ ایک سرکش قوم ہیں ۔
یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ ایسے موقعوں پر حب ّ الوطنی کے احساسات و جزبات کادامن تھامنا،بڑ ی سوچی سمجھی بات تھی کیونکہ اگثرلوگ وطن کی سرزمین اپنی جان کی طرح عزیز رکھتے ہیں  اسی لیے قرآن کچھ آیات میںیہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ بیان ہوئی ہیں :
ولو انا کبّناعلیھم ان اقتلو انفسکم اواخرجوامن دیارکم مافعلوہ الاقلیل منھم
اگر ہم نے ان پر یہ واجب کردیاہوتاکہ وہ آپ کو قتل ہونے کے لیے پیش کریں، یااپنے وطن اور گھر سے باہر نکل جائیں ،تو صر ف تھوڑے سے افراد ہی اس پر عمل کرتے (نساء ۶۶) ۔
فرعون نے اس کے بعد مزید کہا : تم یہ گما ن نہ کرلینا ،کہ ان جادوؤں کی مانند (جادو) پیش کرنا ہمارے بش میں نہیں”یقینا جان لو کہ ہم عنقریب تیرے جواب میں اسی قسم کاجادو لے آئیں گے “ ؛ (فلناء تیک بسحرمثلہ ) ۔
اوراس غرض سے کہ زیادہ سے زیادہ قاطعیت کااظہار کرے ،اس نے کہا : ابھی اسی وقت اس کی تاریخ مقرر کر ، ہمارے اور تیرے درمیا ن وعدہ ہوناچاہیئے کہ جس سے نہ ہم اِدھر اْدھر ہوں اورنہ تو، وہ ہوبھی ایسی جگہ کہ جوہم سب کے لیے برابر ہو : ( فا جعل بیننا و بینک موعدً الانخلفہ نحن ولاانت مکاناً سوًی ) ۔
” مکاناً سوی “ کی تفسیر میں بعض نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد یہ تھاکہ اس جگہ کا فاصلہ تجھ سے اور ہم سے برابر کاہو بعض نے کیاہے کہ اس کافاصلہ شیر کے تمام لوگوں کے لیے یکساں ہوں یعنی ایسی جگہ جوٹھیک شہر کے مرکز میں ہو ،او ر بعض نے یہ کہاہے کہ اس سے مراد ایک ہموار زمین ہے کہ جس پرتما م لوگ آسکیں اور بلندپست اس میں یکساں ہوں ہم کہتے ہیں ان تمام معانی کومجموعی طور پر بھی سمجھا جاسکتاہے ۔
اس نکتے کی طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ طاقتور برسر اقتدار لوگ اس غرض سے کہ وہ اپنے حریف کومیدان سے باہر نکال پھنکیں ، اور پنے مصاحبین اور حواریوں میں جو بعض اوقات متاثر ہوگئے ہوتے ہیں (اور موسٰی کوواقعہ اوران کے معجزات سے و ہ حتمی طور پر متاثر ہوگئے تھے ) طاقت و قوت اور جذبہ پیداکریںظاہر اً بڑ ے اعتمال کامظاہرہ کرتے ہیں،اور بہت زیادہ شور و غل کرتے ہیں ۔
لیکن حضرت موسٰی (علیه السلام) نے تحمل اور بردباری کادامن نہ چھوڑا اور فرعون کے شوروغل پر ہزگز گھبرائے اور پوری صراحت اور قاطبیعت ک ساتھ کہا : میں بھی تیار ہوں ! ابھی اسی وقت ،دن اور وقت کاتعین کیے دیتاہوں ۔” ہمارااور تمہاراوعدہ زینت کے دن (روز عید ) کاہوا  شرط یہ ہے کہ تما م لوگ دن چڑھے تک اس جگہ جمع ہوجائیں“ : ( قال موعد کم الزینة وان یحشرالناس ضحیٰ )(۱) ۔
”یو م الزینة “ (زینت کادن ) کی تعمیر مسلمہ طور پرکسی عید کے دن کی طرف اشارہ ہے جسے ہم مخصوص طور پر معین نہیں کرسکتے لیکن اہم بات یہ ہے کہ لوگ اس دن اپنے کاروبار کی چھٹی کیاکرتے تھے لہذا اس قسم کے پرورگرام میں شرکت کے لیے وہ طبعی طور پر تیار تھے۔
بہر حال فرعون نے موسٰی کے حیرت انگیز معجزات اور اپنے حواریوں میں ان کے معجزات کے نفسیاتی اثر دیکھے تو پختہ ارادٰ کرلیاکہ وہ جادوگروں کی مدد سے ان کامقابلہ کرے گا ، لہذا اس نے موسٰی کے ساتھ معاہدہ کیااور ” اس مجلس سے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے تمام مکرو فریب سمیٹ کر سب کومقررہ روز لے کر پہنچ گیا “ : (فتولّٰی فرعون فجمع کیدہ ثم اتیٰ ) ۔
اس مختصر سے جملے میںوہ تمام حالات و واقعات ،جو سورئہ اعراف میں مفصل اورمبسوط طورپر بیان کیے گئے ،بطورخلاصہ بیان ہوئے ہیںچونکہ فرعون نے اس مجلس سے اٹھنے اور موسٰی و ہارون سے جداہونے کے بعد ،اپنے مخصوص مشیروں حامیوں کے ساتھ مختلف مٹینگیں کیں اس کے بعد اس نے ساریے ملک مصر میں جادوگروں کو دارالحکومت میں آنے کی دعوت دی اس نے کہابہت شوق انگیز ذرائع سے انہیں اس تقدیر ساز مقابلے کی دعوت دی  ان کے علاوہ اور باتیں بھی ہیں جن کی بحث کے لیے یہاں گنجائش نہیں ہے ۔البتہ قرآن نے اس تمام باتوں کو ،ان تین جملوں جمع کردیاہے : (فرعون موسٰی سے جداہوا ، اپنے تمام مکروں کوجمع کیا،اور پھر (تیار ہوکے ) آگیا) (۲) ۔
 
آخر کارمقرون آپہنچا حضرت موسٰی (علیه السلام) لوگو ں کے اس عظیم اجتما ع کے سامنے کھڑے ہوگئے مدّمقابل گرورہ میں سے کچھ لوگ جادوگرتھے ان کی تعداد بعض مفسرین کے قول کے مطابق ۷۲ / افراد تھی ،بعض کے مطابق چارسو افراد تک تھی ،اور بعض دوسروں نے اس سے بہت زیادہ تعداد بھی بیان بھی کیاہے ۔
ان میں سے کچھ افراد فرعون اور اس کے مصاحبین اور اطرافیوں پر مشتمل تھے باقی اکثر یت تماشائی عوام تھے ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) نے اس موقع پرجادوگروں کی طرف ،یافرعونیوں اور جادوگرورں کی طرف رخ کیا،او ر ان سے کہا : وائے ہو تم پر ،تم خدا پر جھوٹ نہ باندھو کیونکہ وہ تمہیں اپنے عذاب سے تباہ برباد کردے گا “ ( قال موسٰی و یلکم لا تفترو اعلی اللہ کذاباً فیسبحتکم بعذاب ) ۔
” اور شکست و ناامیدی اور خسارہ اس کے لیے ہے کہ جو خداپر افترباندھتاہے ، اور اس کی طرف باطل کی نسبت دیتاہے “ : ( وقد خاب من افترٰی ) ۔
یہ بات واضح ہے کہ موسٰی کی خداپر افتراسے مراد یہ ہے کہ کسی شخص کو یاکسی چیز کواس کاشریک قرار دینا ،خداکے بھجے ہوئے معجزات کوجادو سے تفسیر کرنااور فرعون کواپنامعبود اور الٰہ خیال کرناتھا یقیناجو شخص خداپر اس قسم کے افراد باندھے گااورپوری قوّت کے ساتھ نور حق کو بجھانے کی کوشش کرے گا خدااسے بغیر سزادیئے نہ چھوڑے گا ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) کی یہ دوٹوک باتیں ، جو جاد و گروں کی باتوں کے ساتھ کوئی مشابہت نہیں رکھتی تھی ۔ بلکہ اس کاطریقہ تمام سچّے پیغمبروں
والاتھا ۔
اور موسٰی (علیه السلام) کے پاکیزہ دل سے نکل ہوئی تھیں ،بعض کے دلوں پر اثر کرگئیں ،اور اس پر ان لو گوں میں اختلاف پڑ گی بعض شدّت عمل کے طرفدارتھے بعض شک شبہ میں پڑگئے ،اور کہنے لگے ہو سکتاہے موسٰی خداکے عظیم پیغمبر ہوں اور اگر ایساہواان کی تہدیداور نمکیاں مئو ثر ہو کر رہیں گی خاص طور پر ان کا اوران کے بھائی ہارون کاوہی چرواہوںوالاسادہ لباس تھا ان کے چہرے پر عزم راسخ کی جھلک تھی تنہاہونے کے باجودان میں کوئی کمزور ی اور کسی قسم کاتغیر نظر آرہاتھا ، ان کی سچائی کی ایک اوردلیل تھی لہذا قرآن کہتاہے : و ہ آپس میں اپنے کاموں کے بارے میں نزاع میں پڑ گئے اورایک سرے کے ساتھ سرگوشیاں کرنے لگے : (فتناز عواامرھم بینھ واسرواالنجوٰی ) ۔
ممکن ہے کہ یہ سر گوشی اور پوشیدہ باتیں موسٰی کے سامنے ہورہوں  یہ احتمال بھی ہے کہ یہ باتیںفرعون کے سامنے ہوں اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اس منظر سے متاثر ہونے والوں نے مخفی طور پر عوا م سے اس قسم کی سر گوشی اور نزاع شروع کردیاہو ۔
لیکن بہر حا ل مقابلہ جاری رکھنے او ر شدّت عمل کے طرفدار کامیاب ہوگئے انہونے گفتگو کاسلسلہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مختلف طریقوں سے ،موسٰی کے ساتھ مقابلہ کرنے والوں کو تحریک کرنے لگے پہلے ، ” انہوں نے کہا یہ دونوں جادو گرہیں “  (قالواان ھذٰ ان لساحران) (۳) ۔
اس بناپر ان کے مقابلہ میں گھبرانانہیںچاہئے کیونکہ تم اس وسیع و عریض ملک میں جادوگروں کے سردار اور بزگ ہواور تمہارے قوّت وطاقت ان سے زیادہ ہے ۔
دوسرے یہ کہ : ” وہ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہاری سر زمین سے جادو کے زریعہ باہر نکال دیں “ وہ سر زمین کہ جو تمہیں جان کی طرح عزیز ہے او ر تم اس سے تعلق رکھتے ہو اور وہ تم سے تعلق رکھتی ہے ( یرید ان ان یخرجاکم من ار ضکم بسحرھما) ۔
علاوہ ازیں وہ صر ف تمہیں تمہارے وطن سے نکال دینے پر ہی قانع نہیں ہیں ، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ تمہارے مقدسات کابھی مذاق اڑیائیں ” اور تمہارے بلند مرتبہ دین اور سچّے مذہب ہی کو ختم کردیں “ (ویذھبا بطریقتکم المثلیٰ ) (۴) ۔
اب جب کہ یہ بات ہے تو شک کوکسی طرح بھی اپنے قریب نہ بھٹکنے دو ” اوراپنی تمام طاقت ،منصوبہ ، مہارت و قوّت جمع کرو ،اورکام میں لاؤ “ (فاجمعو اکید کم ) ۔
” اس کے بعد سب کے سب متحد ہوکر ایک ہی صف میں ، میدان ِ مقابلہ میں قدم رکھو ‘ ‘ ( ثم ائتواصفاً) ۔
کیونکہ اس تقدیر ساز مقابلے میںوحدت و اتحاد ہی ،تمہاری کامیابی و کامرانی کاضامن ہے ۔
اور آخر میں ،” کامیابی توآج اسی کے لیے ہوگی جو اپنی حریف پر ثابت کردیے گا “ : ( و قد افلح الیوم من استعلیٰ ) ۔


۱۔ ” ضحیٰ “ لغت میں سورج کے پھیلاؤ کے معنی میں ہے ، یاسورج کااوپرآناہے ،وان یحشر النّاس ضحیٰ “ میں ” واؤ “ معیت کی دلیل ہے ۔
۲۔اگر چہ ”تولی“ یہاں پر موسٰی سے جداہونے یااس مجلس سے اٹھنے کے معنی میں تفسیر ہواہے لیکن ممکن ہے کہ اس کی لغت کی طرف توجہ کرتے ہوئے فرعو ن کے موسٰی پر اعترض کرنے ،ناراض ہونے اور اس کی معا ندانہ نکتہ چینی کے لیے بھی استعمال ہواہو ۔
۳ ۔ یہ جملہ اعراب کے لحاظ اس طرح سے ہے کہ ” ان “ ” انّ “ کامنخف ہے ،اور اسی وجہ سے اس نے اپنے مابعد پر عمل نہیں کیعلاوہ ازیں ”انّ“ کے اسم کارفع لغت ِ عرب میں کمیاب نہیں ہے ۔
۴۔’ ’ طریقة “ روش کے معنی میں ہے اور یہاں مذہب مراد ہے اور ” مثلی “ مثل کے ماد ہ سے یہاںعالی اور افضل کے معنی میں ہے (ای الاشبہ بالفضیلة)
سوره طه / آیه 56 - 64 سوره طه / آیه 65 - 69
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma