ایمان محبوبیت کا سرچشمہ ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 13
سوره مریم / آیه 96 - 98 ۱۔ مومنون کے دلوں میں علی (علیه السلام) کی محبت

ایمان مجوبیت کاسرچشمہ ہے :


مذکورہ بالاتین آیات میں جو سورہ مریم کی آخری آیات ہیں ہھر اہل ایما ن، مومنین اور بے ایمان ستمگر وں کی بات ہورہی ہواور قرآ ن اور اس کی بشارتوں اور ا س کی تمبیوں سے متعلق گفتگوہے ۔در حقیقت یہ پہلی بحثوں کاتازہ نکات کے ساتھ ایک نچوڑ ہے ۔
پہلے فرمایاگیاہے : وہ لوگ جوایمان لائے اور انہونے اعما صالح انجام دیئے ۔خد اوندرحمان ان کی محبت دلوں میں ڈال دے گا (ان الذین آمنوا وعملو الصالحات سیجعل لھم الرحمن ودّا ) ۔
بعض مفسرین اس آیت کوامیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں ،اور بعض اسے تمام مومنین کے لیے عام کہتے ہیں ۔
بعض نے کہاہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ خداان کی دشمنوں کے دلوں ِمیں ان کی محبت ڈال دے گا اور یہ محبت ا ن کے لیے ایک ایسی ڈوری بن جائے گی جو انہیں ایمان کی طرف کھینچ لائے گی ۔
بعض نے اسے مومنین کی ایک دوسرے سے محبت کے معنی میں سمجھا ہے کہ جو قدرت وقوت اور اتحا د کاسبب ہوگی ۔
بعض نےاس سے آخرت میں مومنین کی ایک دوسرے سے دوستی کی طرف اشار ہ خیا ل کیاہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کاآپس میں اتنا تعلق
ہوجائے گا کہ و ہ ایک دوسرے کادیدار کرکے انتہائی خوشی اور سردرخسوں کریں گے ۔
لیکن اگر ہم وسعت نظر کے ساتھ آیت کے وسیع مفاہیم پرغور کریں توہم دیکھیں گے کہ آیت کے مفہوم میں یہ تمام تفسیریں جمع ہیں اور ا ن میں آپس میں کوئی تضاد بھی نہیں ہے ۔
اس کا اصلی نکتہ یہ ہے کہ ”ایمان اور عمل صالح “ ایک غیر معمولی قوت جذبات و کشش رکھتے ہیں ۔خداکی واحدانیت اور ا نبیاء کی دعوت پرایمان واعتقاد کی چمک انسان کے قلب و ر ح ، فکر اور گفتار کردار میں ، اعلیٰ انسانی اخلاق ،تقویٰ ،پاکیز گی ،سچائی ، امابت ، شجاعت ، ایثار درگزر کی صورت میں جلوہ گر ہے اور عظیم مقناطیسی قوتوں کی مانند اپنی طرف کھینچے والی ہے ۔
یہا ں تک کہ ناپاک اور گناہ سے آلودہ لوگ بھی پاک لوگوں سے خوش رہتے ہیں اور اپنے ہی جسیے ناپاک لوگوں سے نفرت کرتے ہیںاس بناپرمثال کے طورپر جب بیوی یاشوہریاکسی شریک کار کاانتخاب کرنا چاہیئے ہیں توتاکید کرتے ہیں کہ وہ پاک و نجیب ، امین اور اچھے کردار کاہو ۔
یہ فطری بات ہے ،اور حقیقت میں یہ پہلی جزا ہے کہ جو خدا مومنین اورصالحین کودیتاہے،تاکہ دامن دنیاسے لی کرآخری جہان تک کھنچا ہواہوتا ہے۔
ہم نے اکثر اپنی آنکھو ں سے دیکھاہے کہ اس قسم کے پاک لوگ جب دنیاسے آنکھ بند کرتے ہیں تو بہت سی آنکھیں ا ن کے لیے رو رہی ہوتی ہیں جاہے وہ ظاہر ی طورپرکم حیثیت دکھائی دیتے ہوں اور کوئی اجتماعی مقام و منزلت نہ رکھتے ہوں تمام لوگ ا ن کاخلاصہ محسوس کرتے ہیں اور سب لوگ اپنے آپ کو ان کے سوگ میں ڈوباہوا پاتے ہیں ۔
اب رہی یہ بات کہ بعض اس آیت کوامیرالمو منین علی علیہ السلام کے بارے میں سمجھتے ہیں اور بہت سی روایات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہے تو بلاشک وشبہ اس کا اعلیٰ درجہ اور بلندترین مقا م ا س امام متقین کے ساتھ مخصوص ہے  (چند اہم نکات کے ذیل میں ہم ان روایات کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بحث کریں گے ) لیکن یہ امر اس بات سے مانع نہیں ہوگا کہ دوسرے مرحلوں میں تمام مومنین او ر صالحین بھی اس محبت و مجوبیت مزہ چکھیں اوراس مودت الہٰی سے کچھ حصّہ حاصل کریں ۔اور یہ امرمیں بھی مانع نہیں ہوگا کہ دشمن بھی اپنے دلوں میں ان کے لیے محبت و احترم محسوس کریں ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایک حدیث میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ :۔
ان اللہ اذاحب عبد ا دعا جبرئیل،فقال یاجبرئیل انی احب فلانافاحبہ ، قال فیحبہ جبرئیل ثم القبول فی الارض ! وان اللہ اذابغض عبد ا دعا جبرئیل ، فقال یاجبرئیل انی ابغض فلانابغضہ ،قال جبرئیل ، ثم یناد ی فی اھل السمآء ان اللہ یبغض فلابا فابغضوہ  قال فیبغضہ اھل السمآ ء ثم لوضع لہ البغضاء فی الارض !
” خداجس وقت اپنے بندوں میں سے کسی سے محبت کرتاہے تو اپنے عظیم فرشتے جبرئیل سے کہتا ہے کہ میںفلاں شخص کو محبوب رکھتاہوں تو بھی اسے دوست رکھ تو جبرئیل اس سے محبت کرنے لگتا ہے پھروہ آسمانوں میں منادی کرتاہے کہ اے اہلا آسمان خداند عالم فلاشخص لو پسند کرتا ہے تم بھی اسے محبوب رکھو تو اس کے بعد تمام اہل آسما ن اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر اس محبت کی قبولیت کاعمل زمین پرجاری ہوتاہے اور جب خدا کسی کو دشمن کرتاہے تو وہ جبرئیل سے کہتاہے کہ میں فلاں شخص سے نفرت کرتا ہوں تم بھی اس سے دشمنی رکھو تو جبرئیل اس سے دشمنی رکھتا ہیں پھر وہ اہل آسما ن میں مبادی کرتے ہیں کہ خدافلاں شخص سے نفرت کرتا ہے تم بھی اس سے دشمنی رکھو تو تمام اہل آسمان اس سے متنفرہوجاتے ہیں اس کے بعد اس تنفرکاعمل زمین پرجاری ہوتاہے ۔(۱) ۔
اس کے بعد قرآن کی طرف جوایمان اور عمل صالح کی ہدایت کاسر چشمہ ہے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیاہے : ہم نے قرآن کو تیری زبان پر آسان کردیاہے تاکہ توپرہیز گاروں کواس کے ذریعہ بشارت دے اور سخت مزاج اور ہٹ دھرم دشمنوں لو ڈرائے (فانمالیسرناہ بلسانک لتبشر بہ المتقین و تنذربہ قومالدا ) ۔
”لد ّ “ (لام کی پیش اور دال کی شدکے ساتھ ) الد کی جمع ہے (عدد کے وزن پر) جوایسے دشمن کے معنی میں ہے جوسخت دشمنی رکھتا ہو اور ایسے اشخاص کے لیے بولاجاتا ہے جو شمنی کرنے میں متعصب ، ہٹ دھرم اور بے منطق ہوں ۔
زیر بحث آخری آیت میں جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مومنین کی دلجوئی کے لیے (خصوصا اس نکتہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ سورہ مکہ میں ناز ل ہوئی اور اس وقت مسلمان انتہائی سخت دباؤ میں تھے ) اور تمام ہٹ دھرم دشمنوں کو تنبیہ اور تہدید کے لیے قرآن کہتا ہے : ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی بے ایمان اور گنہگار قوموں کو ہلاک و نابود کیاہے ،وہ اس طرح بابود اور بھول بسری ہوگیئں کہ ا ن کا نام ونشان تک نہیں باقی نہ رہا ۔
” اے پیغمبر ! کیا تو ان میں سے کسی کو محسوس اکرتا ہے یاان اکی کوئی خفیف سی آواز سنتا ہے “ (وکم اھلکناقبلھم من قرن ھل تحس منھم من احد و تسمع لھم رکزا ) ۔
” رکز “ آہستہ آواز کے معنی میں ہے ۔اور جن چیز وں کو زمین میں چھپاتے ہیں انہیں”رکاز ‘ ‘ کہاجاتا ہے یعنی یہ ستمگر قومیں اور حق حقیقت کے سخت دشمن اس طرح سے درہم بر ہم ہوئے کہ ان کی خفیف سی آواز تک بھی سنائی دیتی ہے ۔

 


۱۔یہ حدیث بہت سے مشہور منابع حدیث اور اس طرح بہت سی کتب تفسیر میں آئی ہے لیکن ہم نےاس متن کا انتخا ب کیا ہے کہ جو تفسیر فی ظلال کیل پانچویں جلد میں ” احمد “ ” اور مسلم “ اور ” بخاری سے نقل ہوا ہے ۔
سوره مریم / آیه 96 - 98 ۱۔ مومنون کے دلوں میں علی (علیه السلام) کی محبت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma