ایک بیہودہ اور انحرافی خیال

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 13
سوره مریم / آیه 77 - 82 سوره مریم / آیه 83 - 87

ایک بیہودہ اور انحرافی خیال :


بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ ایمان و پاکیزگی اور تقویٰ ان کے لیے مناسب نہیں ہے اور ان کی وجہ سے وہ دنیاسے محرم رہ جاتے ہیں جب کہ ایمان وتقویٰ کو چھوڑ دینے سے ان کارخ کرلیتی ہے اوروہ مالدار ہو جاتے ہیں ۔
یہ سوچ خواہ سادہ لوحی اور خرافات کی پیروی کی وجہ سے ہویاخدائی عہدو پیمان اور ذمہ داریوں سے دور بھاگنے کے لیے ایک بہانہ ہو ، یہ جو کچھ بھی ہوایک خطر ناک طرز فکرہے ۔
بعض اوقات یہ میں آیاہے کہ ایساگمان کرنے والے بے ایمانوں کی مال ودولت اور کچھ مو منین کے فقرو فاقہ کو اپنی اس بیہودہ سوچ کے لیے ایک دستاویز بنالیتے ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ما ل جو ظالم وکفر کرنے اور تقویٰ کے اصولوں کوچھوڑ نے سے انسان کو ملتاہے نہ وہ سبب افتخار ہے اور نہ ہی ایمان وپرہیز گاری مشروع اور مباح کاموں کے راستے میں کسی طرح سے رکاوٹ بنتے ہیں
بہرحال ہمارے زمانے کی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی ۔ کچھ نادان لوگ موجود تھے جواس قسم کی سوچ رکھتے تھے یاکم از کم اس طر ح کااظہار کرتے تھے ۔
قرآن زیر بحث آیات میں ۔ اس بحث کی مناسبت سے جوکفار اور ظالموں کے سلسلہ میں اس سے پہلے بیان ہوچکی ہے ۔اس طرز فکراوراس کے انجام کے بارے میں بیان کررہاہے ۔
پہلی آیت میںفرمایا گیا ہے :کیا تونے ا س شخص کو نہیں دیکھا جو ہماری آیات کوجھٹلاتا ہے ،اور ان سے کفرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے بہت زیادہ مال و اولاد حاصل ہوگا ۔(افرایت ا لذی کفرباٰیاٰتناو قال لا تین مالاولدا)(۱) ۔
اس کے بعد قرآن انہیں اس طرح جواب دیتاہے : کیاوہ اسرار غیب آگاہ ہوگیاہے یااس نے اس بارے میںخداسے ہوئی عہدوپیمان لے لیاہے ۔( اطلع الغیب ام عند الرحمن عھدا ) ۔
اس قسم کی پیشین گوئی تو وہی شخص کرسکتاہے ، او ر وہی شخص مال و اولاد کے ہونے کے ساتھ کفر کسی رابط کاقائل ہوسکتا ہے کہ جو اسرار غیب سے آگاہ ہو ، کیونکہ ہمیں تو ان دونوں کے درمیان کوئی رابط نظر نہیں آتا یاپھر اس نے خدا سے کوئی عہدو پیمان لیا ہو جبکہ اس قسم کی بات بھی بے معنی ہے ۔
اس کے بعد قطعی الفظ کے ساتھ قرآن مزید کہتاہے : ایسانہیں ہے ( کفروبے ایمانی ہرگز کسی کے مال و اولاد میںزیادتی کاسبب نہیں ہوگی ) ”ہم عنقریب جو کچھ وہ کہتا ہے اسے لکھ لیں گے “ ۔ (کلاسنکتب مایقول ) ۔
ہاں یہ بات ممکن ہے کہ یہ بے بنیاد باتیں بعض سادہ لوح افرد کے انحرف کا سبب بن جائیں ، یہ سب باتیں ان کے نامئہ اعمال میں لکھ لی جائیں گی ۔اور اس پرہم عذاب کودائمی بنا دیں گے (پے درپے اور یک بعد دیگرے عذاب ) ( ونمد لہ من العذاب مدا) ۔
ممکن ہے یہ جملہ آخرت کے دائمی ودوامی عذاب کی طرف اشارہ ہو ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ان عذابوں کی طرف اشارہ ہوجااسی دنیامیں اس کے کفر وبےایمانی کی وجہ سے دامن گیرہوں گے  یہ احتمال بھی قابل ملاحظہ ہے کہ یہی مال واولاد جوغرورگمراہی کاسبب بنے ہوئے ہیں خود اس کے لیے ایک دائمی عذاب بن جائیں گے ۔
(مال و اولاد کے بارے میں) وہ جس چیز کاذکر کررہاہے اس کے تو ہم وارث بن جائیں گے اور قیامت کے دن وہ یکّہ و تنہاہمارے پاس آئے گا ۔( ونرثہ مایقول ویاتینا فرد ) ۔
ہا ں انجام کاریہ ہے کہ وہ ان تمام مادی وسائل کویہیں چھوڑ کرچلتابنے گااور پروردگار کی داد گاہ عدل میں خالی ہاتھ حاضر ہوگا اس وقت اس کی حالت یہ ہوگی کہ اس کانامئہ اعمال گناہوں سے سیاہ اور نیکیوں سے خالی ہوگا ۔وہاں پروہ دنیامیں اپنی ان بے بنیاد کہی ہوئی باتوں کانتیجہ دیکھ لے گا ۔
بعد والی آیت میں ان بت پرستی کے ایک اور سبب کی طر ف اشارپ کیاگیاہے : انہوں نے خدا کے سواکچھ اور معبود اپنے لیے بنا رکھے ہیں تاکہ وہ خداکی بارگاہ میں ان کی عزّت کاسبب بنیں ( واتخذوا من دون اللہ اٰلھة لیکو نوالھم عذا ) ۔
تاکہ وہ خدا کی بارگاہ میں ان کی شفاعت کریں ، اور مشکلات میں ان کی مدد کریں لیکن یہ کتنی ناسمجھی اورخام خیالی کی بات ہے ؟
جیساکہ انہوں نے سمجھا ہے ہرگز ایسا نہیں ہے  نہ صرف یہ کہ بت ان کے لیے باعث عزّت نہیں ہوں گے بلکہ وہ تو ذلت اور عذاب کاسر چشمہ ہیں اسی وجہ سے ” جلد ہی یعنی قیامت کے دن یہ معبود ان عباد ت کرنے والوں کے منکر ہوجائیں گے اور ان سے اعلان بیزاری کریں گے ، بلکہ ا ن کے خلاف ہوجائیں گے “ ۔( کلاسیکفرون بعباد تھم ویکونون علیھم ضدا ) ۔
یہ جملہ بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ ہے کہ جو سورئہ فاطر کی آیہ ۱۳۱۴ میں بیان ہوا ہے :
والذین تد عون من دونہ مایملکون من قطیران تد عو ھم لایسمعوادعائکم  ویو م القیامة یکفرون بشرککم
جنہیں تم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ کسی حقیرسی چیز کے بھی مالک نہیں ہیں ۔اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری باتوں کو نہیں سنتے اور وہ روز قیامت تمہارے شرک کا انکار کردیں گے ۔
نیز سورہ احقاف کی آیہ ۶ میں ہے :
” واذا حشر الناس کانو الھم اعداء “
جس وقت لوگ زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے تو یہ معبود ان کے دشمن ہوجائیں گے ۔
بعض بزرگ مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیاہے کہ مذکورہ بالاآت سے مراد یہ ہے کہ قیامت ک ے دن جبکہ پرردے ہٹ جائیں گے اور تمام حقائق آشکار ہوجائیں گے اور بتوں کی عبادت کرنے والے خود کو رسوااور ذلیل دیکھیں گے تو و ہ بتوں کی عبادت کرنے کاانکار کردیں گےاور ان کے خلاف باتیں کریں گے جیسا کہ آیہ ۲۳ سورہ انعام میں بیان ہوا ہے بت پرست قیامت میں کہیں گے :
” واللہ ربناماکنامشرکین “
اس خداکی قسم جوہمارا پروردگار ہے ہم ہرگز مشرک نہیں تھے ۔
لیکن پہلی تفسیر آیت کے ظاہرکے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتی ہے ،چونکہ بتوں کی عبادت کرنے والے یہ چاہتے تھے کہ ان کے معبودان کے لیے باعث عزّت ہوں لیکن آخرکار وہی ان کے خلاف ہوجائیں گے ۔
البتہ وہ معبود کہ جوفرشتوں، شیطانوں اور جنوں کی مانند عقل شعور رکھنے والے ہیں ا ن کی وضع توظاہر وروشن ہے لیکن ایسے معبود کہ جو بے جان ہیں ،ممکن ہے کہ اس دن حکم خداسے باتیں کرنے لگیں اور اپنی عبادت کرنے والوں سے اپنی بیزاری کااعلان کریں ۔
وہ حدیث کہ جو امام صادق علیہ اسلام سے منقول ہے اس سے بھی اسی تفسیرکی تائید ہوئی ہے کیونکہ امام (علیه السلام) مذکورہ بالاآیت کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:
یکون ھٰؤلاء لذین اتخذوھم الھة من دون اللہ ضدا یوم القیامة ، ویتبرؤن منھم ومن عبادتھم الیٰ یو القیامة :
قیامت کے دن معبود کہ جو خداکے علاو ہ انہونے بنارکھے تھے وہ ا ن کے خلاف ہوجائینگے اور ان سے اوران کی عبادت سے بیزار ی کا اظہار کریں گے ۔
جاذب توجہ یہ ہے کہ اس حدیث کے ذیل میںعبادت کی حقیقت کے بارے میں ایک مختصراور جامع و پرمعنی جملہ منقول ہے :
لیس العباد ة ھیاا لسجود ولاالرکوع ، انماھی طاعة الرجال ، من اطاع مخلوقا فی معصیة الخالق فقد عبدہ :
” عبادت صرف سجدے اور رکوع کاہی نام نہیں ہے ،بلکہ عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کی اطاعت کرنے لگے ، جو شخص خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت کرے تو یہ اس نے اس کی پرستش وعبادت کی ہے اور اس کاانجام بھی وہی مشرکین اور بت پرستوں کے انجام جیسا ہوگا “(۲) ۔


۱۔ بعض مفسرین نے مذکور ہ بالاآیت کی ایک شان نزو ل بیان کی ہے و ہ یہ کہ ایک مومن نے جس کانام ” خباب “ تھا ایک مشرک سے جس کانام ”عاص بن وائل “ تھا اسسے اپنا دیاہوا قرضہ واپس لینا تھا ۔مقروض نے استہزا کے طور پراس سے کہا : دوسرے جہان میں جب میں مال و اولاد پیداکروں گا تو تیراقرض اداکرنوں گا لیکن میں یہ شان نزول زیر بحث آیت کے ساتھ مناسب نہیں رکھتی خاص طور پرجبکہ اوالاد کاذکر بھی اس میں موجود ہے ۔اور ہم جانتے ہیں کہ دار آخرت میں اولاد نہیں ہوگی علاوہ ازین بعد کی آیت میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیاہے کہ جس مال کا وہ ذکر کرتاہے اس کے تو ہم وارث ہو جائیں گے اس تعبیر اچھی طرح واضح ہوجاتاہے کہ اس سے مراد دنیاکے اموال ہیں نہ کہ آخرت کے بہر حال مفسرین کی ایک جماعت نے اس شان نزول کی بناپر آیت کو آخرت کی طرف اشارہ سمجھا ہے لیکن حق وہی ہے ک جوبیا ن کیاجاچکاہے ۔
۲۔نورثقلین ، جلد ۳ ،ص ۳۵۷۔
سوره مریم / آیه 77 - 82 سوره مریم / آیه 83 - 87
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma