تمہاراپرودگار کون ہے ؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 13
سوره طه / آیه 49 - 55 ۱۔ لفظ ” مھد “و ” مھاد “ کامفہوم

تمہاراپرودگار کون ہے ؟

 
یہاں قرآن مجیدنے اپنے طریقے کے مطا بق ان مطالب کو حذف کردیاہے جواس داستان میں آیندہ آنے والی بحثوں میں سمجھے جاسکتے ہیں ۔اور موسٰی (علیه السلام) اورہارون کی فرعون کے ساتھ گفتگو کو براہ ِ راست بیان کرناشروع کردیاہے ۔
در حقیقت معاملہ یہ ہے کہ :
موسٰی (علیه السلام) فرمان حاصل کرنے اورفرعون کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بارے میں ایک ہمہ گیر عمل اور جامع دستور لینے کے بعد اس مقدّس سرزمین سے چل پڑتے ہیں اور مورخین کے قو ل کے مطابق مصر کے قریب اپنے بھائی ہارون (علیه السلام) کے ساتھ ہولیتے ہیں دونوں مل کر،فرعون کے پاس جانے کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں یہ بہت ہی مشکلات کے بعد فرعون کے افسانوی ومحل کے اندر کہ جس میں بہت ہی کم لوگ آجاسکتے تھے پہنچ جاتے ہیں ۔
جس وقت موسٰی (علیه السلام) فرعون کے سامنے جاکرکھڑے ہوئے ، تو وہی مئوثر اور جچے تلے جملے جوخدانے فرمان رسالت دیتے وقت انہیں تعلیم کیے تھے ، بیان کرناشروع کردیئے :
ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے رسول ہیں ۔
بنی اسرائیل کوہمارے ساتھ بھیج دے اور انہیں آزار نہ دے ۔
ہم تیرے پروردگار کے پاس سے دلیل اور واضح معجزہ لیکرا پنے ساتھ لے کرآئے ہیں ۔
جوشخص ہدایت کی پیرو ی کرے اس پرسلام ہے ۔
اورتویہ بات بھی جان لے کہ ہمیں یہ وحی ہوئی ہے کہ عذابِ خدا ان لوگوں کی انتظار میں ہے جوتکذیب کریں اور فرمان خداسے روگردانی کریں ۔
جس وقت فرعو ن نے یہ باتیں سنیں تواس کاپہلاردّعمل یہ تھا کہ اس نے کہا : کے موسٰی ! بتاؤتمہاراپروردگار کون ہے ( قال فمن ربکمایاموسٰی ) ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ مغروراور خود سرفرعون یہ تک کہنے کے لیے تیا ر نہ ہواکہ میراپروردگار کہ جس کے تم جو مد عی ہوکون ہے ؟
موسٰی نے فوراً ہی پروردگار کا بہت جامع اور انتہائی تعارف کروایا :
” کہا “ ہماراپروردگار تو وہی ہے جس نے ہرموجودکووہ کچھ عطا کیا جواس کی خلقت کالازمہ تھا اوراس کے بعد مختلف مراحل ہستی میں اس کی رہبری اور ہدایت کی ” قال ربک الذی اعطٰی کل شئی خلقہ ثم ھدٰی “
اس مختصر سی گفتگو میں حضرت موسٰی (علیه السلام) آفرینش اور عالم ہستی کے دوبنیاد ی اور اساسی اصولوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ جن میں سے ہرایک معرفت پروردگار کے لیے ایک واضح اور مستقل دلیل ہے ۔
پہلی بات یہ کہ ہرموجودکو جس چیز کی اسے ضرورت و احتیاج تھی اسے دی ہے ۔یہ و ہی مطلب ہے کہ جس کے بارے میں کتابوں کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں بلکہ لوگوں نے بے شمار کتابیں لکھی ہیں ۔
اگر نباتات اور ان جاندار وں کے بارے میں کہ جو مختلف علاقوں میںزندگی بسر کرتے ہیں ۔خواہ وہ پرند ہوںیاچرند ، دریائی ہو یاحشرات الارض ، یازمین پررینگنے والے جانور ۔تھوڑا سابھی غور کریں، تو ہم دیکھیں گے ان میں سے ہرایک اپنے محیط اور ماحول کے ساتھ مکلمل ہم آہنگی رکھتاہے اور جس جس چیز کی اسے ضرورت ہے وہ اسے حاصل ہے ۔
پرندوں کی ساخت ایسی بنائی گئی ہے کہ جونہیں شکل ،وزن اور مختلف حواس کے لحاظ سے پرواز کے لیے درکار ہے ۔سمندروں کی گہرائیوں میں رہنے والے جانوروں کی ساخت بھی ان کے مطابق رکھی گئی ہے ۔
ظاہرہے ان سب کے بارے میں بحث کرنے کی اس کتاب میں گنجائش نہیں ہے ۔
دوسرامسئلہ : موجودات کی ہدایت ورہبر ی کا ہے جسے قرآن نے ” ثم “ کے لفظ سے ان کی ضروریات و حاجات کوپوراکرنے کے بعد والے درجہ میں قرار دیاہے ۔
ممکن ہے کہ کوئی شخص یاچیز زندگی کے واسائل سے مالامال توہولیکن ان سے استفادہ کرنے کی طریقوں سے واقفیت نہ ہو لہذا سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ ان سے کام لینے کے طریقوں سے آشناہواور یہ وہی چیز ہے جو مختلف موجودات میںواضح طور پردکھائی دیتی ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے ہرایک اپنی زند گی کا سفر جاری رکھنے کے لیے کیسے بہترین طریقے پراپنی قوتوں کواستعما ل کرتاہے جانور کس طرح سے اپناٹھکانا بناتے ہیں،کیسے اولاد پیداکرتے ہیں، کیسے اپنے بچّوں کی پروش و تربیت کرتے ہیں کس طرح دشمنوں کی دستر س سے مخفی رہتے ہیں اودشمن سے مقابلہ کے لیے کیسے ا ٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔
انسان بھی اس س ہدایت تکوینی کاحامل ہے لیکن چونکہ انسان ایک ایساموجود ہے کہ جوعقل و شعور رکھتاہے لہذا خدانے اس کی ہدایت تکوینی کواس کی ہدایت تشریعی کے ساتھ کہ جو انبیاء کے ذریعہ کی جاتی ہے ملادیاہے اور اگر وہ اس راستے سے منحرف نہ ہو تویقینا مقصد کوپاکے ۔
دوسرے لفظوں میں انسان عقل و شعور او ر ارادہ اختیار رکھنے کی وجہ سے کچھ فرائض اور ذمّہ داریارکھتاہے اور ان کی تکمیل کے لیے کچھ ارتقائی پرورگراموں کاحامل ہے جو حیوانات نہیں رکھتے اسی بناپرانسان تکوینی ہدایت کے ساتھ ساتھ تشریح ہدایت کی احتیاج بھی رکھتاہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ موسٰی (علیه السلام) فرعون کویہ سمجھا ناچاہتے ہیں کہ یہ عالم ہستی نہ توتجھ میں منحصر ہے اور نہ ہی زمین مصر میں ، نہ آج کے زمانے میں کے ساتھ مخصوص ہے اور نہ ہی گزشتہ زمانے سے ۔
اس وسیع عالم کاگزشتہ زمانہ بھی تھا اور آئندہ بھی ہوگا گزشتہ زمانے میں نہ میں تھا اور نہ تو اور اس عالم کے دو بنیادی مسائل ہیں ایک ضروری یات کومہیاکرنااور دوسرے موجودات کی پیش رفت کے لیے قوت اور وسائل کو بررئے کارلانا  یہ دونوںچیزیں تجھے ہمارے پروردگار سے اچھی طرح سے آشناکرسکتی ہیں اور سلسلے میں تو جتنا زیادہ غور فکر کرے گا اس کی عظمت و قدرت کے بیشمار دلائل تجھے ملتے چلے جائیں گے ۔
فرعو ن نے یہ جامع اور عمدہ جواب سن کر ایک اور سوال پیش کیا : ” اس نے کہااگر ایساہے تو پھر ہم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کی ذمّہ داری کیاہوگی “( قال فمابال القرون الاولیٰ ) ۔
اب یہ بات کہ فرعون کی اس جملے سے کیامراد تھی مفسرین نے مختلف نظر یات پیش کیے ہیں :
۱۔ بعض نے کہاکہ چونکہ موسیٰ(علیه السلام) نے اپنے آخر جملے میں توحید کے سب مخالفین کے لیے عذا ب ِ الہٰی کاذکر کیاتھلہذا فرعون نے سوال کیاکہ پھروہ تمام قومیں کہ جو گزشتہ زمانے میں تھیں ” اس قسم کے عذاب میں کیوں مبتلانہیں ہوئیں “ ؟ ۔
۲۔ بعض کہتے ہیں کہ چونکہ موسٰی (علیه السلام) نے خداوند عالم کاسب کے لیے پروردگار اور معبود ہونے کاتعارف کرایاتھا،لہذا فرعون نے سوال کیاکہ پھر ہمارے بڑے اور سب گزشتہ قومیں کیوں مشرک تھیں ؟ یہ بات نشاندہی کرتی ہے کہ شرک اور بت پرستی کوئی غلط کام نہیں ہے ۔
۳۔ بعض نے کہاہے کہ چونکہ موسٰی (علیه السلام) کی گفتگوکامفہوم یہ تھاکہ آخر کار سب کے سب اپنے اعمال کے نتیجے کو پہنچیں گے اور جنہوں نے خداکے فرمان سے روگردانی کی ہے انہیں عذاب وسز ا ہوگی ۔توفرعون نے پوچھاکہ پھران کی ذمّہ دراری کیاہوگی کہ جو فناہوگئے ہیں اور دوبارہ اس زندگی کی طرف پلٹ کرنہیں آئیں گے ؟ ۔
بہر حال موسٰی (علیه السلام) نے جواب دیا” کہ گزشتہ اقوام کے تما م امور میرے پروردگار کے پاس ایک کتاب میںثبت میں ،میراپروردگار کھبی بھی انہیں سنبھال رکھنے میں گمراہ نہیں ہوتاہے اور نہ ہی بھولتاہے “ (قال علمھاعند ربی فی کتاب لایضل ربّی ولاینسی ) (۱) ۔
اس بناپران کاحساب کتاب محفوظ ہے اور آخر کار وہ اپنے اعمال کی جزا یاسزا تک پہنچ جائیں گے اس حساب کتاب کی نگہداشت کرنے والاوہ خداہے کہ جس کے کسی کام میں نہ توکوئی غلطی ہے اور نہ ہی بھول چوک ۔
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ موسٰی (علیه السلام) نے اصل توحید اور خداکےے تعارف کے بارے میں جوکچھ بیان کیاہے وہ پور ے طور پراس بات کو واضح کرتاہے کہ اس ہستی کے لیے کہ جس نے ہر چیز کواس کی ضروریات اور احتیاجات کامل طورپر عطاکی ہیں اور پھر اس کی ہدایت بھی کرتاہے اس حساب کی نگہداشت کوئی مشکل نہیں ہے ۔
” لایضل “ اور ” لاینسی “ کے مفہوم میں کیافرق ہے ،اس بارے میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں لیکن ظاہر یہ ہے کہ لایضل “ پروردگار سے ہرقسم کے اشتباہ اور غلطی کی نفی کی طرف اشارہ ہے اور ” لاینسی “ نسیان کی نفی کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ تو وہ آبتدہ ئے کار میں افراد کے حساب میں اشارہ اشتباہ اور غلطی کرتاہے اور نہ ہی وہ ان کے حساب کی نگہداشت کرنے میں بھول چوک کرتاہے ۔
اس طرح موسٰی (علیه السلام) ضمنی طور پر ہرچیز پرپروردگارکے علمی احاطے کی نشاندہی کررہے ہیں تاکہ فرعون اس واقعیت کی طرف متوجہ ہوکہ اس کے اعمال میں سے ذرّہ برابربھی ،خدا کے علم کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے اور و ہ سزاسے نہیں بچ سکتا  حقیقت میںخداکایہ احاطء علمی اس بات کانتیجہ ہے کہ جوموسٰی (علیه السلام) نے سب سے پہلے کہی ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا کہ جس نے ہر موجودکواس ضرورت و حاجت کی ہر چیز دی ہے اور اسے ہدایت بھی کی ہے ،وہ ہر شخص اور ہر شیز سے آگاہ اور باخبر ہے ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) کی گفتگوکاایک حصّہ چونکہ مسئلہ توحید اور خداشناسی کے بارے میں تھا،لہذا قرآن پرایک اور بات بھی کرتاہے : وہی خداکہ جس نے زمین کوتمہارے لیے مہدِ آسائش بنایا اوراس میں راستہ پیداکیے اور آسمان سے پانی برسایا : (الذی جعل لکم الارض مھدً اوسلک فیھاسبلا ً وانزل من السّمآ ء مآء ) ۔
ہم نے اس پانی کے ذریعہ انواع اقسام کی مختلف نباتات مٹی سے نکالیں : (فاخرجنابہ ازواجاً من بنات شتّٰی ) ۔
اس ساری آیت میںخداکی عظیم نعمتوں میں سے چارحصّوں کی طرف اشارہ ہواہے :
۱۔ زمین : کہ جو انسان کے لیے آرام و آسا ئش کاگہوارہ ہے قانون جاذبہ کی برکت سے اور اسی طرح عظیم ہوائی قشرسے کہ جس نے اس کے اطرف کوگھیر رکھا ہے ،انسان راحت اور امن و امان کے ساتھ اس پرزندگی گزارسکتاہے ۔
۲۔ راستے : جوخدانے زمین میں پیدا کیے ہیں کہ جو اس کے تمام منطقوں کوایک دوسرے سے ملاتے ہیںجسا کہ ہم نے اکثر دیکھاہے کہ سر بفلک پہاڑں کے سلسلوں کے درمیان اکثر دّرے راستے موجود ہیں کہ جن میں سے انسان گزرسکتاہے اور اپنے مقصد اور منز ل تک پہنچ سکتاہے ۔
۳۔ پانی : جومائیہ حیات اور تمام برکات کاسرچشمہ ہے آسمان سے نازل فرمایا ۔
۴۔ چارے اور طرح طرح کی نباتات : جواس پانی کے ذریعہ زمیں اگتی ہیں ۔جن کے ایک حصّہ سے انسان کے لیے غذائی سامان تیار ہوتاہے ،کچھ حصّہ دواؤں کے طور پرکام آتاہے ،کچھ حصّہ کوانسانوں لباس بنانے کے کام میں لاتاہے اور دوسرے حصّہ کووسائل زندگی
(مثلاً : دروازے ، لکڈی کے گھر ،کشتیاں ،جہاز اور بہت سے ذرائع نقل و حمل کے لیے استعمال کرتاہے ۔
بلکہ یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ چاروںعظیم نعمتں، اسی تربیت سے کہ جس تربیت کے ساتھ زیر بحث آیت میں بیان ہوئی ہیں ، انسانی زندگی کی سب سے اوّل اور سب سے مقدّم ضرورتیں ہیں ۔سب شیزوں سے پہلے سکون و آرام کی جگہ کی ضرورت ہے ، اس کے بعد ایک علاقے کودوسرے سے ملانے والے راستوں کی ضرورت ہے ،پھر پانی اور پھرنباتات اور زرعی محصولات کی ۔
آخر میںخداکی ان تمام نعمتوں میں سے پانچویں اور آخر ی نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاگیاہے : ان نباتات سے حاصل ہونے والی چیزوں میں سے تم خود بھی کھاؤ اور اپنے چوپاؤں کوبھی ان میں سے غذا فراہم کرو : (کلو اوارعواانعامکم ) ۔
یہاس بات کی طرف اشار ہ ہے کہ تمہارے حیوانات اورجانوربھی جو تمہاری غذا ،لباس اور زندگی کے دوسے وسائل کے ایک اہم حصّہ کومہیاکرتے ہین، وہ بھی اس زمین اوراسی پانی کی برکت سے ہیں کہ جوآسما ن سے نازل ہوتاہے ۔
اور آخر میں جب ان تمام نعمتوں کی طرف اشارہ کرچکاتو فرماتاہے : ان چیزوں میںصاحبان عقل کے لیے واضح و روشن نشانیاں ہیں - : (ان فی ذٰلک لاٰیات لاولی النھٰی ) ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ” نھٰی “ جمع ” نھیہ “ (بروزن کپیہ ً) اصل میں ” نھٰی “ کے مادّے سے (جواہرکی ضد ہے ) اس سے لیاگیاہے اور عقل ودانش کے معنی میں ہے جو انسان کو برائیوں سے روکتی ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہرقسم کی فکر اور دانش ہی اس حقیقت کوسمجھ سکتے ہے ۔
 
اس مناسبت سے کہ ان آیات کے توحید بیان میںزمیں اور اس کی نعمتوں کی پیدائش کاذکرکیاگیاہے ،معاد کوبھی آخری زیربحث آیت میں اسی زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیاگیا ہے ،فرماتاہے : اسی سے ہم نے تمہیں پیداکیاہے اور اسی میں ہم تمہیں دوبارہ لوٹا دیں گے اوراسی سے تمیں(زندہ کرکے ) نکال کھڑا کریں گے (منھاخلقناکم وفیھانعید کم و منھانخرجکم تارة اخرٰی ) ۔
یہ نسان کے گزشتہ موجود ہ اور آئندہ کے بار ے میں کتنی جچی تلی اور منہ بولتی تعبیر ہے  ہم سب مٹی سے پیدہوئے ہیں سب کے سب پھر مٹی ہی میں مل جائیں گے اور پھر سب کے سب دوبارہ،مٹی ہی سے (زند ہ کرکے ) اٹھاکر کھڑے کیے جائیں گے ۔
ہم سب کامٹی میں مل جانا،یامٹی سے دوبارہ اٹھائے جانابا لکل واضح اور روشن ہے لیکن یہ بات کہ ہم سب کی ابتداء مٹی سے کس طرح ہوئی ،اس سلسلے میں دو تفسیر یں ہیں ۔پہلی یہ کہ ہم سب آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے پیداہوئے اور دوسری یہ ہے کہ ہم خود بھی مٹی ہی سے پیداہوئے ہیں کیونکہ تمام غذائی مواد کہ جس ہمارے اورہمارے ماں باپ کے بدن بن کرتیار ہوئے ہیں،وہ اسی مٹی سے حاصل ہوتے
ہیں ۔
ضمنی طورپر یہ تعبیر تمام سرکشوں اور فرعون صفت لوگوں کے لیے ایک تنبہیہ ہے کہ وہ یہ بات نہ بھولیں کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور انہیں کیاجاناہے یہ سب غرورو نخوت اورسرکشی وطغیان ،اس موجود کے لیے جوکل تک مٹی تھااور کل مٹی ہوجائے گا،کس لیے ؟

 


۱۔یہاں لفظ ” کتاب “ نکرہ کی صورت میںذکر ہواہے جوکہ اس کتاب کی عظمت کی طرف اشارہ ہے جس میں بندوں کے اعمال ثبت ہیںجیساکہ ایک دوسری آیت میں آیاہے :
لایغادر صفیرة ولاکبیرة الااحصاھا
کوئی چھوٹا یابڑا اعمل نہیں ہے مگر یہ کہ اس کتاب میں اس کا حساب موجود ہے (کہف ۔۴۹) ۔
سوره طه / آیه 49 - 55 ۱۔ لفظ ” مھد “و ” مھاد “ کامفہوم
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma