تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 13
سوره مریم / آیه 73 - 76 سوره مریم / آیه 77 - 82

تفسیر


گزشتہ آیات میں بے ایمان ظالموں کے بارے میں بحث تھی زیربحث آیات میں ان کی منطق اور انجام کے ایک گوشہ کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ وہ پہلاگروہ جو پیغمبر السلام صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم پرایما ن لایاتھا ، پاک دل مستضعفین کاتھا جن کاہاتھ دیناکے مال و منال سے خالی تھا وہی مظلوم و محروم لوگوں کاگروہ جن کی ظالموں اور ستمگاروں کے ہاتھوں سے نجات کی خاطر ادیان الہٰی آئے بلند ہمت اور صاحبانایمان مرداور عورتیں جیسے بلال ، سلمان ، عمار ، خباب ، سمیہ ،وغیرہ ۔
چونکہ ا س زمانے کے جاہلانہ معاشرے میں ۔ہردوسرے جاہلانہ معاشرے کی طرح ۔قدرو قیمت کامعیاوہی زروزیور ، دولت و ثرت ، مقام و منصب اور ظاہری ہیت تھی لہذا نضرین حارث اوراسی جیسے ستمگار ثروت مند لوگ غریب و فقیر مومنین پرفخر وناز کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارے حیثیت اور شخصیت کی نشانی تو ہمارے ساتھ موجود ہے اور تمہاری کوئی حیثیت و شخصیت نہ ہونے کی نشانی وہی تمہارافقروفاقہ اور تمہاری محرومیت ہے ۔
وہ کہتے تھے کہ یہی بات ہماری حقانیت اور تمہارے حق پر ہونے کی دلیل ہے ۔
جیساکہ قرآن پہلی زیربحث آیت میں کہتاہے : جس وقت ہماری واضح آیات انہیں سنائی جاتی ہیں تو مغرروستمگر کافرمومنوں سے کہتے ہیں کہ دونوں گروہوں (ہم اور تم) میں سے کونسا گروہ مرتبہ ومقام کے لحاظ سے بہتر ہے ،اور کس کی محبت و مشاورت کی محفلیں سج دھج میں بہترہیں اور کس کی سخاوت زیادہ ہے : ( واذتتلی علیھم اٰیاتنابینات قال الذین کفروالذین اٰمنوا ای الفریقین خیرمقاماواحسن ندیا ) ۔
خصوصا اسلامی روایات میں منقول ہے کہ یہ سرمایہ دار نہایت خوبصورت لباس پہن کراور خوب سج دھج کراصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آگے آگے چلتے تھے اور حقارت اور تمسخرآمیز نگاہ سے ان کی طرف دیکھاکرتے تھے ۔
جی ہاں ! ہرزمانے میں اس طبقے کایہی چلن رہاہے ۔
”ندی “ صل میں’ ’ مدی “ بمعنی رطوبت سے لیا گیاہے اوربعد ازاں فصیح اورسخنور لوگوں کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔
کیونکہ کلام کرنے کے لیے لعاب دہن کاکافی ہونا بھی ضرور ی ہے ۔لہذا” ندا “ آپس میں بیٹھ کرباتیں کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا ہے  یہاں تک کے جس محفل میں کچھ لوگ باہمی محبت کے طور پر مجمع ہوں یامشاورت کے لیے مل بیٹھیں اسے ” نادی “ کہاجانے لگا ہے ۔
مکہ میں ایک جگہ تھی جہاں سرداران مکہ ہوتے تھے اور اسے ” دارالندوہ “ کہتے تھے ۔یہ لفظ بھی اسی مفہوم میں لیا گیاہے ۔
ضمنی طور پر کبھی سخاوت و بخشش کو ’ ’ ندی ‘ ‘ سے تعبیرکرتے ہیں (۱) ۔
مذکورہ بالاآیت ممکن ہے کہ ان سب کی طرف اشارہ ہویعنی ہماری گرم جوشی کی محفل میں تمہاری نسبت زیادہ دلکشی ہے ، اور ہماری دولت و ثروت ، شان و شوکت اورہمارے لباس تم سے زیادہ جاذب نظرہیں اور گفتگواور فصیح و بلیغ اشعارتم سے بہتر ہیں ۔
لیکن قرآن انہیں ایک بہت مدل قاطع اور خاموش کردینے والاجواب دیتاہے : گویاانہونے بشرکی گزشتہ تاریخ کو بھلادیاہے ” ان سے پہلے بے شمارقومیں ایسی تھیں کہ جن کامال دولت اور وسائل زندگی ان سے بہتر تھے اوروہ لوگ ظاہری شان و شوکت کے اعتبار سے بھی ان سے زیادہ آراستہ و پیراستہ تھے لیکن ہم نے ان ستم کاروں اور ظالموں کو بابود کردیا “ ( و کم اھلکناقبلھم من قرن ھم احسن اثاثاورئیا)(۲) ۔
کیاان کامال و دولت ، ان کی زرق برق محفلیں، ان کے فاخرہ لباس اور خوبصورت چہرے ان سے خدا کے عذاب کوروک سکتے ہیں اگر یہ چیز یں بارگاہ خدامیں ا ن کی حیثیت اور مقام کی دلیل تھیں تو پھر وہ ایسے برے انجام سے کیوں دوچار ہوئے ۔دنیاکی شان وشوکت ایسی پائیدار ہے کہ ہواکے ایک معمولی جھونکے سے نہ صرف اس کادفتر الٹ جاتاہے بلکہ کبھی اس کاطومار ہی درہم بر ہم ہوجاتاہے ۔
” قرن ‘ ‘ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی (تفسیر نمونہ ‘جلد پنجم ‘ص ۱۳۹ (اردو ترجمہ ) پر ) بیان کیاہے ،عالم طورپر ایک طولانی زمانہ کے معنی میں ہے ،لیکن چونکہ ”اقتران ‘ ‘کے مادہ سے( نزدیکی کے معنی میں ) لیا گیاہے ، لہذاایسی قوم وجمعیت جوایک ہی زمانہ میں جمع ہو،کے لیے بھی استعمال ہوتاہے ۔
اس کے بعد قرآن انہیں ایک اور تنبیہ کرتاہے کہ تم ان سے یہ کہہ دو کہ اے بے ایمان ظالموں ! تم یہ گمان نہ کرلیناکہ یہ تمہارامال و دولت مایہ رحمت ہے ،بلکہ اکثر اوقات یہ عذاب الہٰی کی دلیل ہوتاہے ” جوشخص گمراہی میں مبتلاہے اوراسی راستے پرچلتے رہنے پر مصر ہے ،خدا اسے مہلت دیتا ہے اور ایہ خوشحال زندگی اسی طرح جاری وساریرہتی ہے “ (قل من کان فی الضلالة فلیمدد لہ الرحمن مدا) ۔
”(یہ مہلت ) اس زمانے تک (ہوگی ) کہ یہ خداپنی آنکھوں سے خد ا کے وعدہ ں کو دیکھ لیں، اس دنیا کاعذاب یاآخرت کاعذاب (حتٰی اذاراو مایوعدون اما ا لعذاب و اماالساعة ) ۔
”اس دن انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کی جگہ اور محفل زیادہ بری ہے “ ۔
اور کس کالشکرزیادہ کمزور ہے ’ ’ (فیعلمون من ھو شر مکاناواضعف جندا) ۔
در حقیقت اس قسم کے منحرف افراد کہ جو پھرہدایت کے قابل نہیں ہیں ، اس بات پرتوجہ رکھیں کہ قرآ ن ” من کان فی الضلا لة “ کہتاہے جوگمراہی میں استمرار کی طرف اشارہ ہے ۔ اس نقطئہ نظر سے کہ وہ خدا کادردناک ترین عذاب دیکھیں،بعض اوقات خداانہیں اپنی نعمتوں سے مالامال کردیتاہے ، جوان کے لیے غرورغفلت کاسبب بھی بن جاتی ہیں اور عذاب الہٰی ا ن نعمتوں کے سلب ہونے کواور بھی زیادہ دردناک بنادیتاہے ۔یہ وہی چیز ہے جو بعض قرآنی آیات میں تدرجیی سزا کے عنوان سے بیان کیاگئی ہے (۳) ۔
” فلیمدد الہ الرحمن مد ا “ کاجملہ اگر چہ صیغئہ امرکی صورت میں ہے لیکن یہ خیر کے معنی میں ہے او ر اسکا مفہوم یہ ہے کہ خداانہیں مہلت اور پے در پے نعمتیں عطاکرتاہے ۔
بعض مفسرین نے اسے اسی امر کے معنی میں لیاہے جو یہاں نفرین کے مفہوم میں ہے یاخداپراس قسم کاسلوک کر نے کے لازم ہونے کے معنی میں ہے ،لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہو تی ہے ۔
مذکورہ بالاآیت میں” عذاب “ کالفظ اس قرینہ کی بنائپرکہ و ہ ” الساعة“ کے مقابلہ میں آیاہے ، عالم دینامیںخداکے عذابوں کی طرف اشارہ ہے ،ایسے عذاب جیسے طوفان نوح ،زلزلہ اور اآسمانی پتھر جو قوم لوط پرنازل ہوئے یاایسے عذاب جومومنین اور حق کے مورچوں میں جہاد کرنے والوں کے ذریعہ ان کے سروں پرنازل ہوتے ہیں ۔جیسا کہ سورئہ توبہ کی آیہ۱۴ میں بیان ہوا ہے :
قاتلوں ھم یعذ بھم اللہ باید یکم :
ا ن سے جنگ کرو کیونکہ داتمہارے تمہارے ہاتھوں سے ان پر عذاب کرے گا
” الساعة “ یہا ںیاتو اختتام دنیاکے معنی میں ہے یاقیامت میںخدائی عذابوں کے معنی میں ( دوسرامعنی زیادہ مناسب نظر آتا ہے ) ۔
یہ ستمگر وں اور دنیاکی شان وشوکت اور الذّت کے شیدائیوں کاانجام ہے لیکن جن لوگوں نے ہدایت کی راہ اختیار کی خداا ن کی ہدایت میں مزید اضافہ کردیتاہے ( ویزید اللہ الذین اھتدو اھدی ) ۔
یہ بات واضح ہے کہ ہدایت کے کئی درجے ہوتے ہیں،جس وقت انسان اس کے ابتدائی وجود ں کوخود سے طے کرلیتا ہے تو خدااسکی مدد فرماتاہے اور اسے اعلیٰ سے علیٰ درجوں پر فائز کردیتاہے اور پھلدار درختوں کی مانند جوہر روز اپنے ارتقا کاایک نیا مرحلہ طے کرتے ہیں یہ ہدایت پانے والے بھی اپنے ایمان اورعما ل صالح کے مطابق ہرروز ایک اونچے سے اونچے مرحلہ میں قدم رکھتے چلے جاتے ہیں ۔
آیت کے آخر میں ان لوگو ں کوجنہونے دنیامیں ناپیدار زیب و زیب پر بھروسہ کرلیا تھا اور ان کے ذریعہ دوسروں پر فخر کیاکرتے تھے قرآن یہ جواب دیتاہے : وہ آثار و اعما صالح جو انسان سے باقی رہ اجاتے ہیں تیرے پرور دگار کی بارگاہ میں ان کاثواب بیش تر اور ان کاانجام زیادہ قیمتی ہے ( والباقیات الصات خیر عنہ ربک ثوابا و خیرمرد ا ) (۴) ۔


۱۔مفردات راغب مادہ ” ندی “ ۔
۲۔ ” اثاثا “ مال ومتا ع اور زینت دنیاکے معنی میں ہے او ر ’ ’ ریی ء“ ہیت و منظر کے معنی میں ہے ۔
۳۔ تفسیرنموزنہ ساتویں جلد میں سورئہ اعراف کی آیات ۱۸۲ ،۲۸۳،کی طرف رجوفرمائیں
۴۔ ”مرد “ (بردزن نمد ) دال کی تشدید کے ساتھ یاتو مصدر ہے ردّا اور با ز گشت کے معنی میں ،یااسم مکان ہے ( مقام باز گشت ) کے معنی میں کہ جس سے یہاں جنت مقصود ہے ،لیکن احتمال آیت کے معنی کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔
سوره مریم / آیه 73 - 76 سوره مریم / آیه 77 - 82
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma