اس وقت ہم دو ایسی جماعتوں کے درمیان گرفتار ہوگئے ہیں جن میں سے ایک افراط اور
دوسرا تفریط کرتا ہے ،ایک طرف تو ایسے لوگ ہیں جو توسل کے مسئلہ میں اشکال تراشی
کرتے ہیں اور ان توسلات کو بھی حرام سمجھتے ہیں جنہیں قرآن اور روایات میں بھی جائز
قرار دیا گیا ہے اور یہ سوچتے ہیں کہ اس طرح وہ خد اکے مقرب بندے بن جائیں گے جب کہ
وہ سخت اشتباہ میں ہیں حالانکہ اولیاء اللہ سے توسل ان کے اعمال ، عبادات اور طاعات
کی وجہ سے ہے جسے انھوں نے خدا کا تقر ب حاصل کرنے کے لئے انجام دیا ہے ۔
دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے توسل کے مسئلہ میں افراط برتی ہے اور راہ غلو
کو انتخاب کیا ہے ، اس گروہ کے نقصانات پہلے گروہ سے کم نہیں ہیں ۔
ان لوگوں نے توسل کے مسئلہ میں ایسی تعبیرات کا سہارا لیا ہے جو کسی بھی صورت میں
توحید افعالی سے سازگار نہیں ہے اور نہ ہی عبادت میں توحید سے ہم آہنگ ہے حالانکہ
اس جہان میں واقعی اثر دکھانے والا خدا ہے
لامؤثر فی الوجود
الا اللہ
ہمار ے پاس جوکچھ بھی ہے سب اسی کادیا ہوا ہے لہذا اس مقام پر ہمارا فریضہ ہے کہ جس
طرح ہم توسل کا انکار کرنے والوں کیساتھ پیش آتے ہیں اسی طرح اس مسئلہ میں افراط
کرنے والوں کو نصیحت کریں اورہمارے اوپران کو صحیح راستہ دکھانافرض ہوگا ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ توسل کے مسئلہ میں بعض گروہوں کا افراط اور زیادہ روی اس بات کی
موجب بنی کہ ایک دوسرا گروہ توسل کا مخالف بن کر سامنے آئے ، اسلئے کہ جب بھی کوئی
کسی مسئلہ میں افراط کرے گا تو اس کے مقابلہ میں تفریط کرنے والا گروہ وجود میں آئے
گا ، آپ جس گروہ میں بھی دیکھیں گے ۔
خواہ وہ میدان سیاست ہو یا اعتقادی اور اجتماعی مسائل کامیدان ہو ، جہاں بھی افراطی
گروہ وجود میں آئے گا وہاں تفریط کرنے والا گروہ بھی وجود میں آئے گا ، یہ ایک
دوسرے کی نسبت لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ دونوں خطاکار ہیں ۔