عجیب نکتہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
شیعوں کا جواب
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
جب اہلبیت علیہم السلام کے چاہنے والے خانہ خدا کی زیارت کے لئے مکہ جاتے ہیں تو وہاں اپنی تعلیمات کے مطابق مسجد الحرام اور مسجد النبی میں نماز کے ثواب کو حاصل کرنے کے لئے اہلسنت کے نماز جماعت میں شرکت کرتے ہیں ، اس وقت جو چیز سب سے پہلے انہیں متعجب کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے ائمہ جماعات نمازمیں سورہ حمد سے پہلے مطلقا ( بسم اللہ الرحمن الرحیم) نہیں پڑھتے یا آہستہ پڑھتے ہیں حتی وہ لوگ نماز جہریہ یعنی مغرب و عشاء میں بھی بلندآواز سے نہیں پڑھتے ۔
حالانکہ مکہ میں جتنے قرآن بھی چھپتے ہیں ان سب میں سورہ حمد سات آیتوں پر مشتمل ہے جن میں ( بسم اللہ الرحمن الرحیم) سب سے پہلی آیت ہے ، اسی وجہ سے بہت سے لوگوں کے لئے یہ سوال ہے کہ بسم اللہ جو قرآن کی سب سے مہم آیت ہے ، وہ کیوں اس طرح فراموشی کا شکارہے ۔
اور جب یہی سوال ہم سے کیا جاتا ہے اور ہم جواباً اہلسنت کے نزدیک اس مسئلہ میں موجودہ روایات کے اختلاف کو بیان کرتے ہیں تو وہ انگشت بدندان رہ جاتے ہیں ، لہذا اس مسئلہ میں ہم سب سے پہلے اہلسنت کے فقہاء کے فتاویٰ اور پھر احادیث کا تذکرہ کریں گے ۔
بطور کلی اہلسنت کے فقہاء تین حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں :
١۔ امام شافعی اور ان کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ نماز میں بسم اللہ کا پڑھنا واجب ہے ، نماز جہریہ میں بلند آواز سے اورنماز اخفاتیہ میں آہستہ آواز سے واجب ہے ۔
٢۔ امام احمد بن حنبل اور ان کے ماننے والے نماز میں بسم اللہ کے پڑھنے کو واجب سمجھتے ہیں لیکن آہستہ پڑھنے کے قائل ہیں ۔
٣۔ امام مالک اور ان کے چاہنے والے نماز میں مطلقا بسم اللہ کے پڑھنے کو ممنوع سمجھتے ہیں اسی طرح ابو حنیفہ اور ان کے چاہنے والوں کا بھی نظریہ ہے ۔
کتاب مغنی میں اہلسنت کے مشہور فقیہ ابن قدامہ کی عبارت کو ملاحظہ کریں:
ان قرائة بسم اللہ الرحمن الرحیم مشروعة فی اول الفاتحة واول کل سورة فی قول اکثر اھل العلم وقال مالک والا اوزاعی لا یقرؤھا فی اول الفاتحة ... ولا تختلف الروایةعن احمد ان الجھر بھا غیر مسنون ...ویروی عن عطاء و طاووس ومجاہد و سعید بن جبیر الجھر بھا وھو مذہب الشافعی...
بیشتر اہل علم حضرات کے نزدیک سورہ حمد اور دیگر قرآنی سوروں سے پہلے پڑھنا مشروع اور جائز ہے لیکن مالک اور اوزاعی نے کہاہے : سورہ حمد سے پہلے نہ پڑھا جائے... اور جو بات احمد ابن حنبل کی طرف سے نقل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ بلند آواز سے بسم اللہ کا پڑھنا مستحب نہیں ہے ... عطاء ، طاووس ، مجاہد اور سعید بن جبیر سے نقل ہوا ہے کہ بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھا جائے اور شافعی کا بھی نظریہ یہی ہے ۔
اس عبارت میں تینوں قول نقل ہوئے ہیں ۔
تفسیر المنیر میں وہبہ زحیلی سے اس طرح وارد ہو اہے :
قال المالکیة والحنفیة لیست البسملة بآیة من الفاتحة ولاغیرھا الا من سورة النمل...الا ان الحنفیة قالوا یقرء المنفرد بسم اللہ الرحمن الرحیم مع الفاتحة فی کل رکعة سرا... وقال الشافعیة والحنابلة البسملة آیة من الفاتحة یجب قرائتھا فی الصلوة الا ان الحنابلة قالوا کالحنفیة یقرؤ بھا سرا ولا یجھر بھا وقال الشافعیة : یسر بھا فی الصلاة السریة ویجھر بھا فی الصلاة الجھریة
مالک اور ابوحنیفہ کے چاہنے والوں کی رائے یہ ہے کہ بسم اللہ سورہ حمد اور قرآن کے دیگر سوروں کا جزو نہیں ہے بلکہ وہ سورہ نمل کی صرف ایک آیت ہے لیکن ابوحنیفہ کے چاہنے والوں کا نظریہ یہ ہے کہ جو بھی نماز کو فرادیٰ پڑھے وہ دونوں رکعتوں میں بسم اللہ کو آہستہ پڑھے لیکن شافعی اور احمد بن حنبل کے پیروکاروں کا کہنا یہ ہے کہ بسم اللہ سورہ حمد کی مستقل آیت ہے جس کا نماز میں پڑھنا واجب ہے ،بس فرق اتنا ہے کہ حنفیوں کی طرح سے حنبلیوں کا کہنا یہ ہے کہ نماز میں اسے بلند آواز سے پڑھنا جائز نہیں ہے بلکہ آہستہ پڑھاجائے لیکن شافعی کے پیروکاروں کا نظریہ یہ ہے کہ اخفاتی نمازوں میں آہستہ اورجہری نمازوں میں بلند آواز سے پڑھا جائے ۔
اس مسئلہ میں شافعیوں کا نظریہ شیعہ فقہاء کے نظریہ سے بہت نزدیک ہے بس فرق اتنا ہے کہ ہمارے فقہاء نے تمام نمازوں میں بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنے کو مستحب اور سورہ حمد میں بالخصوص پڑھنے کو واجب قرار دیا ہے ، اسی طرح بسم اللہ کو تمام سوروں کا جزو سمجھتے ہیں ۔
یقینا ایک سچا محقق اس وقت حیرت زدہ ہوجاتا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) ٢٣ سال تک اپنی بیشتر نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھی ہے اور سب نے حضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی نماز کو سنا بھی ہے لیکن ان کے آنکھ بند کرتے ہی چھوٹے عرصہ میں کیسے اتنا اختلاف پیدا ہوگیا ۔
بعض بسم اللہ کے پڑھنے کو ممنوع بعض واجب بعض تمام نمازوں میں آہستہ پڑھنے کے قائل اور بعض فقط جہری نمازوں میں بلند آواز کے پڑھنے کے قائل ہیں!!
کیا یہ اختلاف اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا کہ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے کہ جس سے صرف نظر کیا جاسکے بلکہ یہ عجیب اختلاف پشت پردہ کسی سیاسی گروہ کی غمازی کرتا ہے کہ جس کی پوری کوشش یہی رہی کہ وہ ضد ونقیض حدیثیں گھڑے اور اسے آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کی طرف نسبت دے ( اس مسئلہ کو اسی طرح رہنے دیں تاکہ ہم اسے بعد میں پوری طرح کھول دیں)
بخاری نے صحیح مسلم میں کچھ ایسی حدیثیں ذکر کی ہیں جو اسی راز سے پردہ اٹھاتی ہیں : مطرف نے عمران بن حصین سے نقل کیا ہے :میں نے جب بصرہ میں علی کے ساتھ نماز پڑھی تو کہا: ذکرنا ھذا الرجل صلاة کنا نصلیھا مع رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) اللہ
اس شخص نے یہ نماز پڑھا کر ہمیں رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کی ناز نماز یاد دلادی ۔
ہاں! اس حدیث سے سمجھ میں آتا ہے کہ ان لوگوں نے حتی نماز کو بھی بدل دیا تھا ۔
شافعی نے اپنی کتاب الام میں وھب بن کیسان سے نقل کیا ہے : کل سنن رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) اللہ قدغیرت حتی الصلاة؛آنحضرت (صلی الله علیه و آله وسلم) کی تمام سنتوں کو بدل دیا گیا حتی نماز کو بھی ۔
1) المغنى ابن قدامہ، جلد 1 ص 521__
3.2.) صحیح بخارى ج 1 ص 190_
4) الامّ، جلد 1 ص 269_
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma