لسان نبوی میں بسم اللہ کو بلند آوا زسے پڑھنا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
شیعوں کا جواب
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
اہلسنت کی مشہور کتابوں میں اس مسئلہ کے متعلق دو متضاد حدیثیں موجود ہیں،جو فتووں کے اختلاف کا باعث بنی ہیں بلکہ بعض اوقات ایک ہی راوی نے اسی مسئلہ ہر متناقض حدیثیں نقل کی ہیں جسے آپ آئندہ ملاحظہ کریں گے ۔
گروہ اول
حدیثوں کا پہلا گروہ نہ تنہا بسم اللہ کو سورہ حمد کا جزو سمجھتا ہے بلکہ اسے بلند آواز سے پڑھنے کو مستحب ( یاواجب) سمجھتا ہے ۔
ہم یہاں پر ان احادیث کو پانچ مختلف راویوں سے نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں :
١۔ پہلی حدیث حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ جن کی عظمت ہر ایک کے لئے آشکار ہے اور ہر ایک کو معلوم ہے کہ آپ سفر اور حضر میں آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کے ساتھ ساتھ رہا کرتے تھے ، دارقطنی نے کتاب سنن میں حضرت سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: کان النبی یجھر ببسم اللہ الرحمن الرحیم فی السورتین جمیعا؛ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) ( بسم اللہ الرحمن الرحیم) کو دونوں سوروں میں بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے ۔
٢۔انس بن مالک جو آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کے مخصوص خادم تھے اور اپنی نوجوانی سے آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی خدمت میں رہے ، وہ مستدرک میں حاکم کی نقل کے مطابق کہتے ہیں: صلیت خلف النبی و خلف ابی بکر و خلف عمر و خلف عثمان و خلف علی کلھم کانوا یجھرون بقرائة بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
٣۔ دار قطنی کی نقل کے مطابق عائشہ جو شب وروز آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کے ساتھ رہتی تھیں وہ نقل کرتی ہیں: ان رسول اللہ کان یجھر ببسم اللہ الرحمن الرحیم؛ آنحضرت بسم اللہ کو بلند آواز سے تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔
٤۔ اہلسنت کے مشہور راوی ابوہریرہ کہ جن سے کتب صحاح اور دیگر حدیثی کتب میں بے شمار حدیثیں نقل ہوئی ہیں ، وہ نقل کرتے ہیں: کان رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)یجھر ببسم اللہ الرحمن الرحیم فی الصلوة؛ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) نماز میں بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے ۔
یہ حدیث کتاب السنن الکبری و مستدرک حاکم اور سنن دارقطنی میں مذکور ہے .
٥۔ ایک دوسری حدیث میں منقول ہے کہ جب جبرئیل نے آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کو نماز کی تعلیم دی تو انھوں نے بھی بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھا ، نعمان بن بشیر ، دارقطنی کی نقل کے مطابق رسول خدا (صلی الله علیه و آله وسلم)سے نقل کرتے ہیں: امنی جبرئیل عند الکعبة فجھر ببسم اللہ الرحمن الرحیم جبرئیل نے کعبہ کے نزدیک نماز کی امامت کی اور بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھا ۔
توجہ طلب بات تو یہ ہے کہ جن دانشمندوں نے بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنے کی احادیث کو نقل کیا ہے ، ان میں سے بعض ( مستدرک میں حاکم)نے احادیث کے ذیل میں لکھا ہے کہ یہ حدیثیں ثقات سے نقل ہوئیں ہیں ۔
یہاں پر اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ اہلبیت کے تمام حدیثی منابع میں بسم اللہ کو سورہ حمد کا جزء مانا گیا ہے اور اس موضوع پر وارد ہونے والی تمام روایتیں متواتر ہیں بلکہ یہ تمام روایتیں بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنے کی تاکید کرتی ہیں ۔
ان روایات کے متعلق مزید معلومات کے لئے کتاب وسائل الشیعہ نماز میں قرائت کے ابواب( ١١، ١٢، ٢١،٢٢) کی طرف مراجعہ کریں ، اسی طرح اہلبیت کی طرف سے مروی سیکڑوں حدیثیں کتاب کافی، عیون اخبار الرضا، مستدر ک الوسائل میں موجود ہیں ۔
کیا ایسے مسائل میں مورد اتفاق ،حدیث ثقلین سے تمسک ہمارا فریضہ نہیں بنتا جو گمراہی سے بچنے کیلئے اہلبیت کا دامن تھامنے کی تاکید کرتی ہے ؟
دوسرا گروہ :
وہ روایتیں جو بسم اللہ کے سورہ حمد کا جزء ہونے یا اسے بلند آواز سے پڑھنے کو منع کرتی ہیں، درج ذیل ہیں:
١۔ صحیح مسلم میں قتادہ سے نقل ہونے والی روایت میں وارد ہوا ہے کہ انس کہتے ہیں: صلیت مع رسول اللہ وابی بکر ، و عمر وعثمان فلم اسمع احدا منھم یقرء بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں نے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)، ابو بکر ، عمراورعثمان کی معیت میں نماز پڑھی لیکن کبھی بھی نہیں سنا کہ ان میں سے کسی نے بسم اللہ پڑھا ہو ۔
اس مقام پر یہ توجہ رہے کہ اس حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کی قرائت کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا ہے !
یہ بڑے حیرت کا مقام ہے کہ انس جیسا شخص جو ایک جگہ صراحت کے ساتھ یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)، خلفاء ثلاثہ اور حضرت علی کی معیت میں نماز پڑھی اور سب نے بلند آواز سے بسم اللہ کی قرائت کی لیکن یہی شخص ایک دوسری جگہ پر یہ کہہ رہا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)اور خلفاء ثلاثہ کی معیت میں نماز پڑھی لیکن ان میں کسی نے بسم اللہ نہیں پڑھی بلند آواز سے پڑھنا تو درکنار!
کیا اس مقام پرایک عقلمند شخص کے ذہن میں یہ خیال نہیں آسکتا کہ پہلی والی حدیث کو باطل کرنے کے لئے جو عنقریب ذکر کی جائے گی دوسری والی حدیث گھڑی گئی ہے اور پھر اسے انس کی طرف نسبت دے دی گئی ہے ، اسی وجہ سے دوسری والی حدیث میں حضرت علی کا نام ذکر نہیں کیا گیا اسلئے کہ علی اور ان کے چاہنے والے ہر جگہ موجود تھے پس اگر حضرت کا ذکر آجاتا تو رسوائی کا باعث ہوتا؟
٢۔سنن بیہقی میں عبد اللہ بن مغفل سے روایت ہوئی ہے : سمعنی ابی وانا اقرء بسم اللہ الرحمن الرحیم فقال : ای بنی محدث ؟ صلیت خلف رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)وابی بکر وعمر و عثمان ، فلم اسمع احدا منھم جھر بسم اللہ الرحمن الرحیم جب میرے والد نے سنا کہ میں نماز میں بسم اللہ پڑھتا ہوتو کہا: یہ کیا بدعت ہے ؟ میں نے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)، ابوبکر اور عثمان کی امامت میں نمازپڑھی ، کسی نے بسم اللہ نہیں پڑھی ۔توجہ رہے کہ اس حدیث میں بھی حضرت علی کا کوئی تذکرہ نہیں ہے !
٣۔ کتاب المعجم الوسیط میں جناب ابن عباس سے نقل ہوا ہے : کان رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)اذا قرء بسم اللہ الرحمن الرحیم ھزء منہ المشرکون وقالوا محمد یذکر الہ الیمامة وکان مسیلمة یسمی الرحمن فلما نزلت ہذہ الآیة امر رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)ان لایجھر بھا؟
جب رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے پڑھتے تھے تو مشرکین مذاق اڑایا کرتے تھے اس لئے کہ یمامہ میں رحمن مسیلمہ کا نام تھا اور کہا کرتے تھے : محمد کی مراد یمامہ کاخدا ہے اسی وجہ سے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)نے حکم دیا کہ اس آیت کو بلند آواز سے نہ پڑھا جائے ۔
اس حدیث کے جعلی ہونے کے دلائل کاملا ًواضح ہیں:
اولا: لفظ رحمن پورے قرآن میں صرف (بسم اللہ الرحمن الرحیم) میں نہیں آیا بلکہ اس کے علاوہ ٥٦ مقامات پر آیا ہے ،صرف سورہ مریم میں ١٦ مرتبہ آیا ہے ، اگر بسم اللہ کے نہ پڑھنے کی وجہ یہی ہوسکتی ہے تو پھر ان سوروں کو بھی نہ پڑھا جائے تاکہ مشرکین کو مذاق اڑانے کا موقع نہ مل سکے ۔
ثانیاً: ایسا نہیں ہے کہ مشرکین مکہ صرف بسم اللہ کا مذاق اڑاتے تھے بلکہ وہ تو پورے قرآن کا مذاق اڑایا کرتے تھے جیسا کہ خود اسی کی آیتیں شاہد ہیں ( اذا سمعتم آیات اللہ یکفر بھاو یستھزأ بھا فلا تقعدوا معھم ) اسی طرح وہ لوگ اذا ن کا بھی مذاق اڑایا کرتے تھے جیسا کہ سورہ مائدہ آیت ٥٨گواہ ہے ( واذا نادیتم الی الصلاة اتخذوھا ھزوا)
کیا اس تمسخر کے بعد آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)نے لوگوں کو اذان کہنے سے منع کیا تھا ، یامشرکیں کے ڈر سے آہستہ کہنے کا حکم دیا تھا؟
اس کے علاوہ مشرکین خود رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کا مذاق اڑایا کرتے تھے : ( واذا رآک الذین کفروا ان یتخذونک الا ھزوا) مذکورہ دلیل کی بنیاد پر رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کو بھی پنہاں رہنا چاہئے تھا ۔
ان سب باتوں سے ہٹ کر خود خدا نے اپنے پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کو مذاق اڑانے والے مشرکین سے نجات دلانے کا وعدہ کیا ہے : ( انا کفیناک المستھزئین ) ۔
ثالثاً : مسیلمہ کون تھا جس کی وجہ سے آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)لوگوں کو کلمہ رحمن کو چھپانے کا حکم دیں یا آہستہ پڑھنے کا حکم دیں ، اس کے علاوہ مسیلمہ کے دعوے دسویں ہجری میں آشکار ہوئے تھے جب اسلام پوری طرح قوی ہوچکا تھا ۔
یہ تمام دلیلیں اس حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہیں کہ اس حدیث کو گھڑنے والے زمان و مکان سے بڑے بے خبر تھے ۔
٤۔ابن ابی شیبہ کی کتاب مصنف میں مذکور حدیث کو جناب ابن عباس نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: الجھر ببسم اللہ الرحمن الرحیم قرائة الاعراب بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنا بدو عرب کی عادتوں میں سے تھا ۔
جب کہ ایک دوسری حدیث میں وارد ہوا ہے کہ علی بن زید بن جدعان کہتے ہیں: عبادلہ (عبد اللہ ابن عباس، عبد اللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر ) بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے ۔
ان سب باتوں کے علاوہ بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنا حضرت علی علیہ السلام کی سیرت تھی ، یہ ایک ایسی بات ہے جو اہل تشیع اور تسنن کی کتابوں میں معروف ہے ، کیا حضرت علی بدو عر ب تھے ؟ کیا ایسی ضد و نقیض حدیثیں اس مسئلہ کے سیاسی ہونے پر دلالت نہیں کرتیں؟
ہاں!حقیقت تو یہ ہے کہ بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنا حضرت علی علیہ السلام کی سیرت تھی لہذا جب معاویہ حضرت کی شہادت اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی مختصر حکومت کے بعد برسر اقتدار آیا تو حضرت کے تمام آثار کو اسلامی ممالک سے پاک کرنے کی ٹھان لی اس لئے کہ اسے خوب معلوم تھا کہ مسلمانوں کے ذہنوں میں حضرت کامعنوی نفوذ اس کی سلطنت کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں ۔
اس مدعا کی دلیل انس بن مالک کی وہ روایت ہے جسے حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں نقل کیا ہے : جب معاویہ مدینہ آیاتو جہری نمازو ں ( صبح ، مغرب ،عشائ) میں سے کسی نماز میں (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کو پہلی رکعت کے حمد میں پڑھا لیکن بعد والے سورہ میں نہیں پڑھا ، پس جیسے ہی نماز ختم ہوئی مہاجرین اور انصار کا ایک گروہ ( جو شاید اپنی جان بچانے کے لئے نماز میں آیاتھا ) ہر طرف سے شور مچانے لگا کہ : اسرقت الصلاة ام نسیت ؟! کیا نماز کو چرا لیا ہے یا اسے بھلا دیا ہے ؟! یہ سن کر معاویہ نے دوسری نماز میں سورہ حمد اور دیگر سوروں کے بعدبسم اللہ کی قرائت کی ۔
گویا معاویہ اس طرح مہاجرین اور انصار کو آزمانا چاہتا تھا اور ان کا امتحان لینا چاہتاتھاکہ وہ لوگ بسم اللہ کو حذف کرنے کے بعد کیا کہتے ہیں لیکن اس نے اپنی یہ حرکت شام میں برابر جاری رکھی ۔
 1) سنن دار قطنی، جلد 1 ص302، اسى حدیث کو سیوطى نے درّ المنثور میں جلد 1 ص 22 پر نقل کیا ہے _
2) مستدرک الصحیحین، جلد 1 ،ص 232، میں نے رسولخدا(ص) حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت على کے پیچھے نمازیں پڑھیں سب کے سب بسم اللہ کو بلند آواز کے ساتھ پڑھتے تھے_مترجم
3) الدّر المنثور جلد 1 ص 23_
4) السنن الکبرى جلد 2 ، ص 47_
5) مستدرک الصحیحین، جلد 1، ص 208_
6) دار قطنی،جلد 1 ،ص 306 _
7) سنن دار قطنی، جلد 1، ص 309_
8)صحیح مسلم، جلد 2، "" باب حجة من قال لا یجہر بالبسملة"" ص 12_
9) السنن الکبری، جلد 2 ، ص 52_
10) سورة انبیاء آیت 36_
11) سورة حجرات آیت 95_
12) مصنف ابن ابى شیبة ، جلد 2 ص 89_
13) الدر المنثور ،جلد 1 ص 21_
14) مستدرک الصحیحین، جلد 1 ص 233_
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma