عقل و شرع کی روشنی میں جوتوں پر مسح کرنا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
شیعوں کا جواب
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ اہلسنت جہاں وضو میں مسح کے مخالف اور پیروں کو دھونے پر مصر ہیں وہیں جوتوں پر مسح کے قائل ہیں اور اس سلسلہ میں پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کی بعض حدیثوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
حالانکہ جو حدیثیں اہلبیت علیہم السلام کے توسط سے ہم تک پہنچی ہیں ، وہ جوتوں پر مسح کی مخالف ہیں بلکہ اہلسنت کی بعض کتابوں میں مرقوم بعض حدیثیں بھی اس کی مخالف ہیں ۔
وضاحت:
تمام شیعہ فقہاء اہلبیت علیہم السلام کی احادیث کی پیروی کرتے ہوئے جوتوں پر مسح کو مطلقا ً جائز نہیں سمجھتے جب کہ اہلسنت کے بیشتر فقہاء سفر و حضر میں بطور مطلق جوتوں پر مسح کے قائل ہیں ، اگرچہ ان میں سے بعض نے اس مسئلہ کوضروری مواقع سے مخصوص کردیا ہے ۔
چند سوال:
١۔کیوں پیروں کا مسح جائز نہیں ہے لیکن جوتوں پر مسح جائز ہے اس لئے کہ جب پیروں کو دھونے کا مسئلہ پیش آتا ہے تو توجیہ میں یہ کہا جاتا ہے کہ پیر چونکہ آلودہ ہوتے ہیں لہذا انہیں مسح کے بدلے دھونا بہتر ہے ۔
کیا گندے جوتوں پر مسح کرنا پیروں کو دھونے کا جانشین بن سکتا ہے ؟اہلسنت کے اکثر فقہاء پیروں کو دھونے اور جوتوں پر مسح کرنے میں تخییر کے قائل ہیں ۔
قرآن مجید کا ظاہربتا رہا ہے کہ سر اور پیروں پر مسح کرو کیوں آپ اس ظاہر کو چھوڑ کر جوتوں پر مسح کی باتیں کرتے ہیں؟
٣۔ کیوں نہیں یہ لوگ اہلبیت علیہم السلام جنہیں پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)نے کتاب خداکے ہمراہ مایۂ نجات بتا یاہے ،کی روایتوں کو اہمیت دیتے جو متفقاً جوتوں پرمسح کی مخالف ہیں ۔
٤۔ یہ بات صحیح ہے کہ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی طرف سے بعض حدیثیں جوتوں پر مسح کے متعلق وارد ہوئی ہیں لیکن دوسری طرف ایسی روایتیں بھی وارد ہوئی ہیں جو پیروں پر مسح کی تائید کرتی ہیں ، کیوں دوروایتوں کے تعارض کے موقع پر قرآن کی طرف رجوع نہیں کیا جاتا ، اسے کیوں نہیں حاکم اور رفع اختلاف کے لئے مرجع قرار دیا جاتا؟
ہم نے اس مسئلہ میں جس قدر بھی غور و فکر کیا ہمارا تعجب بڑھتا ہی گیا :
کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں ہے: اضطراری مواقع میں جوتوں پر مسح کرنا واجب ہے اور کسی ضرورت کے بغیر جائز ہے اگرچہ پیروں کا دھونا ہی افضل ہے ۔
اس کے بعد حنابلہ سے نقل ہواہے کہ جوتوں پر اس کے اندرسے مسح کرنا اور پیروں کا دھونا افضل ہے جوعلامت جواز اور شکر نعمت ہے اور ابو حنیفہ کے بعض ماننے والوں نے اس کی موافقت بھی کی ہے ۔
اسکے بعددعویٰ کیا ہے کہ جوتوں پر مسح کرنا بہت سی روایتوں کے ذریعہ ثابت ہوچکا ہے جو حد تواتر تک پہنچتی ہیں ۔
جالب توجہ تو یہ ہے کہ مصنف نے اس کے بعد جوتوں اور اس پر مسح کے شرائط کے سلسلہ میں ایک مفصل بحث کی ہے : اس کے مستحبات، مکروہات، جوتوں پر مسح کے مبطلات ، ان جوتوں کے احکام جنہیں دوسرے جوتوں کے ساتھ پہنا جائے یا یہ کہ جوتا چمڑے کا ہونا چاہئے یا چمڑے کی جنس کا بھی نہ ہوتو کافی ہے ،شکاف دار اور بدون شکاف جوتوں کے احکام وغیرہ...کی ایک مفصل بحث کی ہے ۔
٥۔کیوں نہیں جوتوں پر مسح کرنے والی روایتوں کو اضطراری مواقع، سفر اور جنگی حالات جن میں جوتوں کا اتارنا غیر ممکن ہوتا ہے ، اسی طرح دوسرے مشکل مواقع پر حمل کیا جاتا ۔
یہ ایسے سوالات ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ہے ، ہاں !اتنا ضرورہے کہ اپنی طرف سے اسباب تراشی اس ہنگامہ کا باعث بنی ہے .
میں نے خود جدہ کے ایرپورٹ پردیکھا کہ ایک سنی برادر آیا اس نے مسح کے بدلے پیروں کو اچھی طرح دھویا اور دوسرا آیا تو اس نے جوتوں پر ہی مسح کیا اور نماز کے لئے چلا گیا ۔
یہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)جیسا حکیم انسان ایسا حکم دے سکتا ہے جس کی کوئی توجیہ نہیں ہے .
ان سوالات کے بعد ان روایتوں پر ایک طائرانہ نظر بھی دوڑانا ہے تا کہ ایسے فتووں کا مدرک اور عاقلانہ راہ حل مل جائے .
1) الفقہ على المذاہب الاربعہ، جلد 1 ، ص 135_
2) ایضاً، ص 136_
3) ایضاً، از ص 135 تا ص 147_
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma