نص کے مقابلہ میں اجتہاد اور تفسیر بالرائے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
شیعوں کا جواب
عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
نص کے مقابلہ میں اجتہاد کی قباحت جس حد تک ہمارے دور میں ہے اس حد تک صدر اسلام میں نہیں تھی یعنی اس وقت ہم جس شدت کے ساتھ سیرت نبوی اور قرآن کے پابند ہیں صدر اسلام کے مسلمان اس حدتک پابند نہیں تھے ۔
مثلا جب عمر نے کہا: متعتان کانتامحللتان فی زمن النبی(صلی الله علیه و آله وسلم) وانا احرمھماواعاقب علیہامتعةالنساء ومتعة الحج
رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے زمانے میں دو متعہ حرام تھے متعہ نساء ( عورتوں سے متعہ ) اور متعہ حج ( حج تمتع) اور میں ان دونوں کو حرام کرتا ہوں لہذا جو بھی اصرار کرے گا اسے سزا دوں گا ۔ اس تحریم کے بعد شاید کسی بھی صحابی نے اعتراض نہیں کیا اور یہ نہ کہا: نص کے مقابلہ میں اجتہاد جائز نہیں ہے ۔
لیکن اگر ہمارے دور میں کوئی فقیہ اسی طرح سے کہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے زمانے میں فلاں حکم حلال تھا میں اسے حرام کررہاہوں تو کوئی بھی اس کی بات نہیں مانے گا بلکہ ہر ایک یہی کہے گا کہ کسی کوبھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کرے اس لئے کہ احکام الہی کو منسوخ کرنا یا نص کے مقابلہ میں اجتہاد کرنا جائز نہیں ہے ۔
لیکن صدر اسلام میں سنت نبوی اور احکام الہی کی نسبت ایسی کوئی پابندی نہیں تھی اسی وجہ سے ہم صدر اسلام کے فقہاء کے حالات میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ احکام الہی کی مخالفت کیا کرتے تھے جیسا کہ وضو میں پیروں کے مسح کی جگہ اسے دھونے کا حکم اس مخالفت کی زندہ مثال ہے ۔
شاید کوئی یہ خیال کرے کہ بیشتر اوقات پیر گندے رہتے ہیں جنہیں مسح کر کے پاکیزہ نہیں بنایاجاسکتا مخصوصا ً اس دور میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو کبھی بھی جوتے وغیرہ پہنتا ہی نہ تھا اسی وجہ سے عرب میں یہ رسم تھی کہ جب کوئی مہمان آتا تھا تو اس کے پیروں کو دھلانے کے لئے پانی کو مہیا کرتے تھے !
اس مدعا پر صاحب تفسیر البرہان کی وہ دلیلیں ہیں جنہیں انھوں نے پیروں کو دھونے کی توجیہ میں بیان کیا ہے : گندے پیروں پر مسح کرنا نہ تنہا اس کی پاکیزگی کا باعث نہیں بلکہ گندگی کے پھیلنے کا موجب ہے اور اس طرح پیروں کے ساتھ ہاتھوں کے گندہ ہوجانے کا احتمال زیادہ ہے۔
اسی طرح اہلسنت کے مشہور فقیہ ابن قدامہ ( متوفی ٦٢٠ قمری) بعض لوگوں کی زبانی نقل کرتے ہیں : چونکہ پیر بیشتر اوقات گندا ے رہتے ہیں لہذا سر کے مسح کے بعد جو اکثر اوقات پاکیزہ رہتا ہے ،پیروں کا دھونا بہتر ہے . ان لوگوں نے ظاہر قرآن کے مقابلہ میں اجتہاد اور استحسان کو برتری دی اور پیروں کے مسح کی جگہ اسے دھونے کا حکم دے دیا ۔
لیکن وہ یہ بھول چکے تھے کہ وضو ایک ترکیبی عمل ہے جوپاکیزگی اور عبادت کا مجموعہ ہے اس لئے کہ سر کے مسح میں بعض فقہاء نے ایک انگلی سے مسح کرنے کی اجازت دے رکھی ہے جو کسی بھی حالت میں گندگی کو دور کرنے کا باعث نہیں ہے ، اسی طرح پیروں کے مسح کا حال ہے ۔
حقیقت میں سر اور پیر کا مسح اس نکتہ کا حامل ہے کہ وضو کرنے والا شخص سر سے پیر تک فرمان خدا کا مطیع اور فرمانبردار ہے ورنہ نہ سر کا مسح پاکیزگی کا باعث ہے اور نہ ہی پیروں کا ۔
بہرحال ہم حکم خدا کے اطاعت گذار ہیں اور ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم اپنی ناقص عقلوں کے ذریعہ حکم الہی کو بدل دیں ، جب خدا نے اپنے پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں اور چہرے کو دھوئیں ، سر اور پیروں کا مسح کریں تو کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی عقل قاصر کے ذریعہ اس کی مخالفت کی جرات کرے اور ایسی توجیہات کا سہارالے جو خود بے بنیاد ہیں ۔
ہاں! تفسیر بالرائے اور نص کے مقابلہ میں اجتہاد دو ایسی عظیم مصیبتیں ہیں جنہوں نے بعض مقامات پر فقہ اسلامی کے چہرے کو مخدوش کردیاہے ۔
 1) اس حدیث کے مصادر ،نکاح موقّت کى بحث میں بیان ہوچکے ہیں_
2)المغنى ابن قدامہ ، جلد 1 ، 117_
عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma