بہترین راہ حل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
شیعوں کا جواب
عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
جو بھی ان اقوال سے روبرو ہو گا وہ حقیقت کو پانے کے لئے ضرور مطالعہ کرے گا مگرکون سی ایسی مشکل تھی جس کی وجہ سے اس مسئلہ میں اس قدر ضد و نقیض باتیں مذکور ہیں اور کیوں ہر محدث اور فقیہ نے اپنے لئے جداگانہ راستہ اختیار کیا ہے ؟
کیونکر ان متضاد روایتوں کو جمع کیا جاسکتا ہے ؟
کیا یہ اختلا ف اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ کوئی خطرناک سیاسی مسئلہ درپیش تھا کہ جس کی وجہ سے بعض حدیثوں کو گھڑنے والوں نے آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کے صحابہ کے اسماء سے غلط فائدہ اٹھایا اور ان حدیثوں کو ان کی طرف نسبت دینے کی جرات کی کہ انھوں نے آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) سے اس طرح نقل کیا ہے اور وہ سیاسی مسئلہ صرف اور صرف عمر کا وہ جملہ تھا جسے اس نے لوگوں کے درمیان کہا: رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے زمانہ میں دوچیز یں حلال تھیں جسے میں حرام کررہا ہوں کہ جن میں سے ایک عقد موقت ( متعہ ) بھی ہے .
اس کلام نے لوگوں کے درمیان منفی اثر چھوڑا کہ اگر اسی طرح امتی اور خلفاء اسلام کے احکام کو بدلنا چاہیں تو ہمارے پاس انہیں روکنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے کہ یہ کام صرف خلیفہ دوم سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسروں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ نص کے مقابلہ میں اجتہاد کریں اگرچہ اس کے بعداسلامی احکامات اور محرمات و واجبات متغیر اور خود اسلام آہستہ آہستہ نابود ہوجاتا ۔
لہذا اس کے منفی آثار کو ختم کرنے کے لئے بعض لوگوں نے کہاکہ یہ دونوں رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے زمانہ میں حرام کردئے گئے تھے ، لہذا من گڑھت حدیثیں صحابہ کی طرف نسبت دی جانے لگیں چونکہ ان حدیثوں میں کوئی ہم آہنگی نہیں تھی لہذا ضد و نقیضہوگئیں!!
ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس حدتک متناقض حدیثیں جمع ہوجائیں بلکہ بعض فقہاء ان روایتوں کو جمع کرنے کے سلسلہ میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ متعہ ایک مرتبہ مباح ہوا اور پھر حرام ہوگیا ، پھر مباح ہو ا اور پھر حرام ہوگیا ، کیا احکام الہی کوئی کھیل ہے ؟
ان تمام باتوں کے علاوہ رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے زمانہ میں متعہ کا حلال ہونا کسی ضرورت کے تحت تھا جس کے پیش آنے کا امکان ہر دور میں ہے ،یہ ضرورت مخصوصاً ہمارے دور میں ایک عظیم مشکل کی صورت میں موجود ہے ،اسلئے کہ آج کے دور میں جوانوں اور دیگر لوگوں کے لئے غرب کا طولانی سفر درپیش ہے ، پھر وہ کیوں حرام رہے ؟
آج کی طرح اس دور میں بہکنے کے امکانات بہت کم تھے ، اس وقت بے حجاب یا بد حجاب، گندے پروگرام اور فیلموں ، ٹیلی ویژن ، اینٹرنٹ، ڈش انٹینا، مفسد محفلوں ،فاسد اخبارات اور میگزینوں کا کوئی وجود نہیں تھا لیکن آج یہی سب چیزیں ہمارے جوانوں کیلئے مصیبت بنی ہوئی ہیں ۔
کیا اس دور میں متعہ ایک مرتبہ حلال ہوا اور پھر حرام ہوگیا ، کیا یہ قابل قبول ہے ؟
ان تمام نکات سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر ایک طرف فقہاء کی ایک کثیر جماعت نے متعہ کو حرام کہا ہے تو دوسری طرف ایک جماعت نے حلال کہا ہے لہذا یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے ، پس حلال کے طرفداروں کو یہحق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے مخالفین پر تہمت لگائیں کہ وہ اسلامی احکامات کے پابند نہیں ہیں ،اسی طرح حرام کے طرفداروں کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ العیاذ باللہ متعہ کے طرفداروں کو زنا کا طرفدار کہیں ، وہ قیامت کے دن خدا کو کیا جواب دیں گے ؟! اس لئے کہ یہ ایک اجتہادی اختلاف ہے (جو فقہاء کے درمیان رائج ہے)۔
فخر رازی جو ایسے مسائل میں ایک خاص تعصب رکھتے ہیں، اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں : ذھب السواد الاعظم من الامة الی انھا صارت منسوخة وقال السواد منھم انھا بقیت کماکانت امت کی اکثریت متعہ کے نسخ ہونے کی قائل ہے لیکن بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہوا ہے اور ابھی بھی مباح ہے . یعنی یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے ۔
ہم یہیں پر اس بحث کو تمام کرتے ہیں اور لوگوں سے ہماری استدعایہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو کسی بھی تہمت اور ناروا نسبت دینے سے پہلے ایک بار پھر اس بحث کو مورد مطالعہ قراردیں اور پھر فیصلہ کریں ، ہمیں یقین ہے کہ وہ ضرور اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ متعہ کا مسئلہ اپنی جگہ پر باقی ہے اوراپنے شرائط کے ساتھ حلال بھی ہے جو بہت سی مشکلات کا حل ہے .
1) تفسیر کبیر فخر رازى ، جلد 10، ص 49_
عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma