اگر ہم لوگوں کو یہ تعلیم دے دیں کہ وہ جب بھی ائمہ علیہم السلام کی قبروں کی زیارت
کے لئے جائیں تو افراط و تفریط سے پرہیز کرتے ہوئے دائم یاد خدا میں مشغول رہیں ،
اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور ان کی زندگی کو اپنے لئے سرمشق بنائیں تویقینا ان کے
مزارات تعلیم و تربیت اور توبہ واستغفار کا مرکز بن جائیں گے .
ہمارے تجربہ نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ ائمہ
علیہم السلام اور شہداء کی زیارت کے لئے جاتے ہیں تو پرنشاط لوٹتے ہیں، ان کے قلوب
پاکیزہ اور ایک خاص نورانیت سے برخوردار ہوتے ہیں جس کے آثار ان میں مدتوں باقی
رہتے ہیں ۔
یہ لوگ جب انہیں اپنے گناہوں کی شفاعت اور دنیوی و اخروی مشکلات کو حل کرنے کے لئے
پکارتے ہیں تو ان سے رابطہ برقرار کرنے کے لئے گناہوں سے دوری کرتے ہیں اور زیادہ
سے زیادہ نیکیاں انجام دیتے ہیں ۔
اس کے علاوہ جب وہ بارگاہ الہی میں بزرگان دین کو اپنا شفیع بناتے ہیں اور ان سے
توسل کرتے ہیں تو خود بخودان میں مشکلات کے تحمل کی طاقت آجاتی ہے جو نا امیدی سے
بچنے کا بہترین راستہ ہے ، روحی اور جسمی رنج و آلام کم ہوجاتے ہیں اور ان پرہر طرف
سے برکتیں نازل ہوتی ہیں ۔
پھر کیوں ہم زیارت ، شفاعت اور توسل سے غلط مفہوم لے کر لوگوں کو بے شمارمعنوی اور
روحی و جسمی خیرات و برکات سے محروم کردیتے ہیں ؟
کس عقل نے ہمیں اس کی اجازت دی ہے ؟
ایسی معنوی مسافرتوں سے روکنے کی وجہ سے بہت بڑا نقصان وجود میں آیا ہے لیکن افسوس
ہے کہ توحید اور شرک کے متعلق بے جا وسوسوں نے ایک بہت بڑی جماعت کو بے شمار نیکیوں
سے محروم کردیا ہے ۔