5:""عقیدہ تنزیہ کا اصلى سبب""

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
شیعوں کا جواب
عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
صحابہ کے سلسلہ میں بے انتہا قداست کا تصور عصمت سے بہت نزدیک ہے جو نہ قرآن میں آیا ہے اور نہ ہی سنت میں بلکہ کتاب و سنت اور تاریخ اس کے برخلاف گواہی دیتی ہے یہاں تک کہیہ بھی کہاجاتا ہے کہ اس عقیدہ کا تصور قرن اول میں نہیں تھا لہذا اس کے بعد ہمیں تحقیق کرنا ہوگی کہ کیوں بعد والے قرون میں یہ مسئلہ اٹھا؟
ظاہرا ً اس عقیدہ کے وجود میں آنے کی چند دلیلیں ہوسکتی ہیں:
١۔ بظاہر بہترین فرض وہی ہے جس کاتذکرہ گذشتہ بحث میں ہو اہے کہ بعض لوگوں کا تصور یہ تھا کہ اگر صحابہ کی قداست ختم ہوگئی تو ہمارارسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)سے رابطہ ختم ہوجائے گا اسلئے کہ انہیں کے ذریعہ ہم تک کتاب وسنت پہنچی ہے ۔
لیکن اس سوال کا جواب روشن ہے ،اس لئے کہ کوئی بھی صحابہ کو معاذ اللہ جھوٹا یا غیر صالح نہیں سمجھتا تھا بلکہ ان کے درمیان مورد اعتماد لوگ تھے جو ہمارے اور رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم) کے درمیان رابطہ کا کردار ادا کرسکتے تھے بالکل وہی بات کہ جسے ہم اہل بیت علیہم السلام کے صحابیوں کے سلسلہ میں کہتے ہیں ۔
یہ مشکل صرف آج سے مخصو ص نہیں ہے بلکہ آنے والی صدیوں میں بھی مورد بحث رہے گی اس لئے کہ ہم آج متعدد واسطوں کے ذریعہ خود رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)تک پہنچاتے ہیں لیکن کوئی بھی ایسا نہیں ملتا جو یہ کہہ دے کہ یہ تمام واسطے سچے اور مورد اعتماد اور مقدس ہیں کیونکہ اگر ایسا فرض کرلیا جائے تو پھر ہمارا دین نابود ہوجائے گا ۔
بلکہ ہر ایک یہی کہتا ہے : روایتیں عادل اور ثقہ لوگوں سے لینی چاہئے اسی وجہ سے رجالی کتابیں تحریر کی گئیں تاکہ موثق کو غیر موثق سے جدا کیا جاسکے لہذا اگرہم غیروں کے ساتھ جس طرح پیش آتے ہیں اسی طرح صحابہ کے ساتھ پیش آئیں تو اس میں مشکل کیا ہے ؟!
٢۔ یہ تصور کہ جرح یعنی بعض صحابیوں کو مورد نقص قرار دینے سے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کی عظمت میں کمی آتی ہے لہذا صحابہ پر نقص وارد کرنا جائز نہیں ہے ،صحیح ہے؟
وہ لوگ جو اس دلیل کو مانتے ہیں ہمارا ان سے ایک سوال ہے : کیا قرآن نے ان منافقین کے خلاف سخت ترین جملات استعمال نہیں کئے جو رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم) کی صحبت میں تھے؟کیا صحابہ کے درمیان منافقین کے وجود نے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کی عظمت کو گھٹا دیا ہے ؟ہرگزنہیں!
خلاصہ یہ کہ ہر دور میں بلکہ تمام اولوالعزم انبیاء کے زمانے میں نیک اور بد لوگ تھے لیکن ان کی وجہ سے کسی بھی پیغمبر کی عظمت میں کمی نہیں آئی ۔
٣۔ اگر صحابہ کے کردارپر نقص و عیب کا مسئلہ پیش آیا تو صدر اسلام کے سب سے پہلے خلفاء کی شخصیت مجروح ہوگی لہذا ان کی شخصیت کو بچانے کے لئے صحابہ کی قداست کے مسئلہ کو زندہ کرنا تھا تاکہ عثمان کے دور میں بیت المال پر جو مصیبت آئی یا اسی طرح کے دوسرے امور جس کے مرتکب بعض خلفاء اور صحابہ ہوئے ہیں ، کوئی ان کے خلاف زبان نہ کھول سکے کہ کیوں ان لوگوں نے ایسا کیا ہے؟ !
اسی طرح مسئلہ قداست کے ذریعہ معاویہ کی طرف سے مسلمانوں کے پیشوا ( امام علی علیہ السلام) سے بیعت کی مخالفت کرنے اور جنگ کا ڈھول بجا کر ہزاروں مسلمانوں کو موت کی بھینٹ چڑھادینے کی توجیہ کی جاسکے اور اس مسئلہ کو نقادوں کے نقد سے دور رکھا جاسکے .
البتہ حقیقت تو یہ ہے کہ صدر اسلام کے سیاستمداروں نے اس مسئلہ کو اٹھایا تھا بالکل اسی طرح جیسے ان لوگوں نے ( آیت اولوالامر...)کا مصداق زمانے کے حکام کا بتایا تاکہ عادل و ظالم حکمراں جیسے بنی امیہ اور بنی عباس کے شامل حال ہوسکے ، لہذا میں یہ تصور نہیں کرسکتا کہ اس جامعیت کو قداست کے طرفدار قبول کرلیں ۔
٤۔ ایک جماعت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کی قداست کامسئلہ ان روایات اور احادیث کی وجہ سے ہے جو وارد ہوئیں ہیں ۔
البتہ یہ ایک بہترین توجیہ ہوسکتی ہے لیکن جب اس دلیل پر نقد کرنے کا مسئلہ پیش آتا ہے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ جس عقیدہ پر وہ لوگ ایمان لائے ہیں ،اس کا آیات و روایات میں کوئی وجود نہیں ہے .
اہم ترین آیت جس سے ان لوگوں نے تمسک کیا ہے وہ درج ذیل ہے :
(والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ اعد لھم جنات تجری تحتھا الانھار خالدین فیھا ابدا ذلک الفوزلعظیم) .
اور مہاجرین و انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ہے ان سب سے خدا راضی ہوگیا ہے اور یہ سب خدا سے راضی ہیں اور خدا نے ان کے لئے وہ باغات مہیا کئے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے .
اہلسنت کے اکثر مفسرین نے اس آیت کے ذیل (پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم) کے بعض صحابہ) سے نقل کیا ہے :جمیع اصحاب رسول اللہ فی الجنة محسنھم و مسیئھم ؛ رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے تمام نیک اور بد اصحاب جنت میں ہوں گے ۔ اور اس مدعا کے لئے اس آیت کو دلیل بناتے ہیں ۔
جب کہ مذکورہ آیت اسی صورت میں تابعین کو نجات والا قرار دیتی ہے جب وہ نیکیوں میں اصحاب کی پیروی کریں ، جس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اصحاب کے لئے جنت کی ضمانت لے لی گئی ہے ، کیا واقعا ً اس کامطلب یہ ہے کہ انہیں گناہوں میں چھوٹ دے دی گئی ہے؟
کیا وہ رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) جو لوگوں کی ہدایت کے لئے آیا ہے ، اس کے لئے اس بات کا امکان ہے کہ اس نے اپنے صحابیوں کو چھوٹ دے رکھی ہو اور ان کے گناہوں کو نظر انداز کردیا ہو ، جب کہ قرآن نے اصحاب سے بھی زیادہ نزدیک رہنے والی رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کی بیویوں کے لئے اس طرح فرمایا ہے : تم لوگوں نے اگر گناہ کیا تو سزا دوبرابر ہوگی ۔
قابل توجہ نکتہ ہے کہ جو پیچیدگیاں اس آیت میں ہیں وہ سور ہ فتح کی آیت ٢٩کے ذریعہ رفع ہوجاتی ہیں اس لئے کہ اس آیت میں رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے صحابیوں کے اوصاف اس طرح بیان ہوئے ہیں :
( اشداء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعا سجدایبتغون فضلا من اللہ رضوانا سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود ) وہ لوگ کفار کے لئے سخت اور اپنے درمیان مہربان ہیں ، انہیں دائم رکوع و سجود میں دیکھو گے اس حال میں کہ وہ ہمیشہ خدا کے فضل و کرم اور ا سکی رضایت کے طلبگار ہیں اور سجدے کے آثار ان کی صورتوں پر نمایاں ہیں ۔
کیا وہ لوگ جنہوں نے جنگ جمل اور جنگ صفین کو شروع کیا اور امام وقت کے خلاف اقدام کیا جس کی وجہ سے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ، وہ ان سات صفات کے مالک تھے ؟ کیا وہ لوگ اپنے درمیان مہربان تھے ؟ کیا ان لوگوں نے سختی کو کفار کے ساتھ رکھا یا مسلمانوں کے ساتھ ؟!
خدا اسی آیت کے ذیل میں ایک جملہ کو بڑھا تا ہے جو بخوبی مقصود حقیقی کو روشن کرتا ہے :(وعد اللہ الذین آمنوا وعملوا الصالحات منھم مغفرة واجرا کریما) ؛
خدا نے ان لوگوں سے اجر عظیم اور مغفرت کا وعدہ کیا ہے جو با ایمان اور نیک اعمال انجام دیتے ہیں ۔
اس آیت کی بناپر اجر عظیم اور مغفرت صرف انہیں لوگوں کے لئے ہے جو نیک اعمال کے مالک اور صاحبان ایمان ہیں ، پس کیا وہ لوگ جنہوں نے جنگ صفین کو شروع کیا یا وہ لوگ کہ جنہوں نے عثمان کے زمانے میں بیت المال کو جیسے چاہا استعمال کیا ، نیک اعمال کے مالک تھے ؟
جب کہ خد انے اپنے عظیم رسول کو صرف ایک ترک اولی کے انجام دینے کی وجہ سے مواخذہ کیا ہے اور انہیں بہشت سے باہر نکال دیا ہے ۔
جناب یو نس علیہ السلام کو ترک اولیٰ کی وجہ سے چالیس دن مچھلی کے پیٹ میں روانہ کردیا ۔
جناب نوح علیہ السلام کو اپنے نافرمان بیٹے کی شفاعت کی وجہ سے مواخذہ کیا ہے ،اب کیا یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ خدا نے پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کے صحابیوں کو اس قانون سے مستثنی کردیا ہو؟
1) سورة توبہ آیت 100_
2) تفسیر کبیر فخر رازى و تفسیر المنار ذیل آیت مذکورہبرابر ہے_(3)
3) سورہ احزاب آیہ 30_
4) سورہ فتح آیہ 29_
عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma