د: تحریم متعہ کے وقت کے سلسلہ میں اختلاف

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
شیعوں کا جواب
عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
مذکورہ روایت سے جسے اہلسنت کے بے شمار محدثوں اور مفسروں نے ذکر کیا ہے ، یہ امر کاملا ً روشن ہوجاتا ہے کہ متعہ عمر کے زمانے میں حرام ہوا ہے نہ پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کے دور میں اور اس مدعا پر بے شمار وایتیں موجود ہیں جو انہیں منابع میں موجود ہیں ، بعنوان نمونہ ملاحظہ کریں :
١۔ مشہور محدث ترمذی نقل کرتے ہیں کہ ایک شامی شخص نے عبد اللہ بن عمر سے متعہ کے سلسلہ میں سوال کیا توعبدا للہ بن عمر نے جواب دیا : حلال ہے ، اس نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا آپ کے والد نے اس سے منع نہیں کیا تھا ؟عبد اللہ نے کہا: ارایت ان کان ابی قد نھی عنھا و قد سنھا رسول اللہ انترک السنة و نتبع قول ابی ؟!
اگر میرے والد منع کریں جب کہ پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)نے اسے سنت قرار دیا ہوتو کیا ہم آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کی سنت کو ترک کرکے اپنے باپ کی نہی کی پیروی کریں ؟!
٢۔صحیح مسلم میں جابر ابن عبد اللہ انصاری ایک روایت میں فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے زمانے میں بعنوان مہر مختصرکھجور اور آٹے پر چند دنوں کے لئے متعہ کیا کرتے تھے اور یہ کام ابوبکر کے زمانے تک انجام دیا لیکن عمر نے عمرو بن حریث کے واقعہ کے بعد اس سے منع کردیا ۔
٣۔ اسی کتاب کی ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ ایک دن ابن عباس اور ابن زبیر کے درمیان متعہ اور حج تمتع کے مسئلہ پر اختلاف ہوگیا ( لہذا جابر ابن عبد اللہ انصاری کو قضاوت کے لئے دعوت دی) جناب جابر نے فرمایا: ہم رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے زمانہ میں ان دونوں کو انجام دیتے تھے یہاں تک کہ عمر نے منع کیا اور پھر ہم نے ان دونوں کو انجام نہیں دیا !
٤۔ ابن عباس جنہیں حبر الامة کا لقب دیا گیا تھا وہ رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے دور میں متعہ کے نسخ نہ ہونے کے قائلین میں سے ہیں اس لئے عبد اللہ ابن زبیر اور ابن عباس کے درمیان اس مسئلہ پر جو بحث ہوئی ہے وہ اس مدعا کی دلیل ہے :
جس زمانے میں عبد اللہ ابن زبیر مکہ میں تھا، ایک دن لوگوں کے درمیان جن میں ابن عباس بھی تھے، کہنے لگا: بعض لوگ جن کی آنکھوں کو خدا نے ان کے دل کی آنکھوں کی طر ح اندھا کردیا ہے ، متعہ کے جواز کا فتویٰ دیتے پھر رہے ہیں ۔
( اس زمانہ میں جناب ابن عباس نابینا ہوچکے تھے ) جناب ابن عباس نے جیسے ہی اس کی یہ بات سنی اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: تو ایک نادان شخص ہے مجھے اپنی جان کی قسم ! ہم رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے زمانہ میں یہ کام کیا کرتے تھے ۔
ابن زبیر نے ( رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے اسم مبارک کی رعایت کئے بغیر ) کہا: اس وقت یہ کر کے دکھاؤ ، خد اکی قسم سنگسار کردوں گا! یعنی اس نے دھمکی کے ذریعہ جواب دیا!
احتمالاً عبد اللہ ابن زبیر نے یہ بات اپنی قدرت کے زمانے میں کہی ہے جس وقت اس نے مکہ کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے رکھی تھی ، جس کی وجہ سے وہ کسی کی پرواہ کئے بغیر ابن عباس جیسے دانشمند کے متعلق اس طرح کی جسارت کر بیٹھا ۔
حالانکہ جناب ابن عباس سن کے اعتبارسے ابن زبیر کے باپ اور علم کے اعتبار سے قابل مقایسہ نہیں تھے اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ علمی اعتبار سے دونوں مساوی تھے تب بھی اسے یہ حق نہیں تھا کہ وہ جناب ابن عباس کے حق میں گستاخی کرے ،اس لئے کہ اگر کسی نے اس مسئلہ میں اپنے فتوے پر عمل کیا اور اسے بعد میں خطا کا علم ہو تو یہ عمل وطی بالشبہہ ہوگا اور سب کو معلوم ہے کہ وطی بالشبہہ کی کوئی حد نہیں ہے لہذا سنگسار کرنے کی دھمکی دینا بے معنی اور ایک جاہلانہ فعل ہے ۔
البتہ یہ سلوک عبد اللہ ابن زبیر جیسے نادان اور گستاخ جوان سے کوئی بعید نہیں ہے !
قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ راغب نے اپنی کتاب محاضرات میں نقل کیا ہے کہ عبد اللہ ابن زبیر نے ابن عباس کو سرزنش کرتے ہوئے کہا: کیوں متعہ کو حلال سمجھتے ہو ؟ جناب ابن عباس نے جواب دیا: اپنی بوڑھی ماں سے سوال کر ! وہ اپنی ماں کے پاس آیا تو اس نے کہا: ماولدتک الا فی المتعة میں نے متعہ سے تجھے پید اکیا ہے !
٥۔احمد ابن حنبل کی مسند میں ابن حصین کے حوالے سے درج ہے کہ متعہ کی آیت قرآن میں نازل ہوئی اور ہم نے اس پر عمل بھی کیا اور اس کے بعد کوئی ایسی آیت نازل نہیں ہوئی جو اسے نسخ کردے یہاں تک کہ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)اس دار فانی کو وداع کرگئے ۔
مذکورہ روایات کے مقابلہ میں ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں جو زمانہ رسول(صلی الله علیه و آله وسلم)میں اس حکم کے نسخ ہونے پر دلالت کرتی ہیں ، اے کاش! یہ تمام روایتیں زمان نسخ کے سلسلہ میں متفق ہوتیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ان میں سے ہر ایک زمان کی تعیین میں متفاوت ہیں ۔
١۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ متعہ کی تحریم کا حکم (ساتویں ہجری )جنگ خیبر میں صادر ہوا ہے ۔
٢۔ بعض روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) نے عام الفتح (یعنی جس سال مکہ فتح ہوا)میں متعہ کی اجازت مکہ میں دی اور پھراسی سالکچھ ہی دنوں کے بعد منع کردیا ۔
٣۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ مکہ سے نزدیک سرزمین ہوازن میں غزوہ اوطاس کے بعد تین دن کے لئے متعہ کی اجازت دی اور پھر منع کردیا ۔
اگر ہمارے پاس ان تمام اقوال کے سلسلہ میں تحقیق کا حوصلہ ہوتا تو یہ مسئلہ اور بھی وسیع ہوجاتا اس لئے کہ اہل سنت کے مشہور فقیہ نووینے شرح صحیح مسلم میں چھ قول نقل کئے ہیں جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی حدیث سے مستند ہے .
١۔ متعہ جنگ خیبر میں حلال ہوا اور پھر ( چند دنوں کے بعد) حرام ہوگیا ۔
٢۔ متعہ عمرة القضا ء میں حلال ہوا (اور پھر حرام ہوگیا)۔
٣۔متعہ فتح مکہ کے روز حلال ہوا اور پھر حرام ہوگیا ۔
٤۔ رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)نے متعہ کو غزوہ تبوک میں حرام کردیا تھا ۔
٥۔ متعہ جنگ ہوازن میں حلال ہوا ۔
٦۔متعہ رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے آخری ایام حجة الوداع میں حلال ہوا ۔
اس مسئلہ میں شافعی کا قول تعجب خیز ہے : میں نے متعہ کے سوا کسی بھی چیز کو نہیں دیکھا کہ خدا نے اسے حلال کیا ہو اپھر حرام کردیا ہو اور پھر حلال کر کے حرام کیا ہو ۔
یہ متضاد روایتیں جس محقق کی نظر سے بھی گذریں گی وہ ان کے جعلی ہونے کا یقین کر لے گا اور اسے ایک سیاسی کھیل کا حصہ سمجھے گا ۔
1) یہ حدیث آجکل کى شائع شدہ صحیح ترمذى میں اس طرح نہیں ہے بلکہ اس میں متعة النساء کى جگہ متعة الحج آیا ہے _ لیکن جناب زین الدین المعروف شہید ثانى نے کہ جو دسویں صدى کے علماء میںسے تھے کتاب شرح لمعہ میں اور مشیر ابن طاؤوس نے کہ جو ساتویں صدى کے علماء میں سے تھے کتاب الطرائف میں اسى حدیث کو متعہ النساء کے ساتھ نقل کیا ہے ایسا لگتاہے کہ صحیح ترمذى کے قدیمى نسخوں میں یہ حدیث اسى طرح تھى لیکن بعد میں اس میں تبدیلى کردى گئی ہے ( اس قسم کى مثالیں بہت زیادہ ہے)_
2)صحیح مسلم ، جلد 2،ص 131_
3) صحیح مسلم ، جلد 2،ص 131_
4) صحیح مسلم، جلد4، ص 59، حدیث 3307_ چاپ دار الفکر_
5) محاضرات، جلد 2، ص 214 و شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحدید، جلد 20 ،ص 130_
6) مسند احمد، جلد4 ،ص 436_
7) درّ المنثور جلد 2،ص 486_
8) صحیح مسلم ، جلد4 ، ص 133_
9)مصدر سابق، ص 131_
10) شرح صحیح مسلم از نووى ، جلد 9، ص 191_
11)المغنى ابن قدامہ، جلد 7 ، ص 572_
عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma