٦۔ کیا تقیہ صرف کفار کے مقابلہ میں ہے ؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
شیعوں کا جواب
عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
ہمارے بعض مخالفین کے سامنے جب قرآن کی صریح آیات اور مذکورہ روایات کو بیان کیا جاتا ہے تو وہ تقیہ کی مشروعیت کو ماننے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ یہ تقیہ صرف کفار کے مقابلہ میں ہے اور مسلمانوں کے سامنے کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے ۔
( مذکورہ دلائل کی روشنی میں ) ان دونوں کے درمیان فرق واضح ہے اس لئے کہ :
١۔ اگر تقیہ کا مفہوم متعصبوں کے مقابلہ میں جان و مال اور ناموس کو محفوظ رکھنا ہے تو پھر ایک جاہل مسلمان اور متعصب کافر کے درمیان کیا فرق ہے ؟اگر عقل ،جان و مال اور ناموس کو بیہودہ قربان نہ کرنے کا حکم دیتی ہے تو پھر ان دونوں میں کیا فرق باقی بچتا ہے ؟
ہمیں ان لوگوں کی خبر ہے جو جھوٹے پروپگنڈے اور جہالت کی وجہ سے کہتے ہیں : شیعوں کا خون بہانا خدا سے تقرب کا وسیلہ ہے پس اگر ایک مخلص شیعہ اور اہل بیت علیہم السلام کا پیروکار ایسے لوگوں کے درمیان گرفتار ہوجائے اور اس سے وہ سوال کریں کہ تمہارا مذہب کیا ہے ؟ اور وہ جواب دے کہ میں شیعہ ہوں اوراس طرح اپنا گلا جہالت کی تلوار تلے رکھ دے اور جان دے دے تو بتائیں:کیا کوئی عاقل شخص ایسا حکم کرے سکتا ہے ؟
ایک دوسری تعبیر کے مطابق ؛جو سلوک عرب کے مشرکین نے جناب عمار کے ساتھ کیا یا جوکچھ مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں نے آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کے دو صحابیوں کے ساتھ روارکھا یا جوکچھ بنی امیہ اور بنی عباس نے حضرت علی علیہ السلام کے شیعوں کے ساتھ کیا تو کیا ا یسی صورتوں میں تقیہ کا حکم دینا حرام ہے؟ چاہے اہل بیت کے ہزاروں مخلص اورچاہنے والے قتل کر دئے جائیں ، صرف اس وجہ سے کہ تمام حکام مسلمان ہیں اور ان کے سامنے تقیہ کرنا منع ہے؟
اسی وجہ سے ائمہ علیہم السلام نے شدت کے ساتھ تقیہ کیا ہے یہا ں تک کہ فرمایا:تسعة اعشار الدین التقیة دین کے دس حصوں میں سے نو حصہ تقیہ ہے ۔
بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں مارے جانے والے شیعوں کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں پہنچتی ہے یعنی ان لوگوں نے جس قدر چاہا شیعوں کا قتل عام کیا ۔
کیا ایسے حالات میں اب بھی تقیہ کی مشروعیت کے سلسلہ میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے ؟
ہمیں یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ اہلسنت حضرات مسئلہ حادث اور قدیم کے سلسلہ میں سالہا سال اختلافات میں گرفتار رہے اوراس راہ میں لاتعداد لوگوں کے خون بھی بہائے( جب کہ یہ وہ ایسے اختلافات تھے جو آج کے دانشمندوں کی نظر میں بیہودہ ہیں )۔
کیا وہ لوگ کہ جو اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے ، وہ جب اپنے مخالفین کے درمیان پھنس جاتے اوران سے ان کے عقیدہ کے سلسلہ میں سوال کیا جاتا تھا تو کیا انہوں نے واضح طور پر جواب دیا کہ میرا فلاں عقیدہ ہے ؟ اگرچہ اس کے بعد ان کا خون بہادیا جاتا ، خواہ ان کی جان جانے سے کوئی فائدہ ہوتا یانہ ہوتا ؟!
٢۔ فخر رازی اس آیت ( الا ان تتقوا منھم تقاة) کی تفسیر میں کہتے ہیں : اس آیت کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کفار کے غلبہ کے دوران تقیہ مباح ہے :
الا ان مذہب الشافعی ۔رض۔ ان الحالة بین المسلمین اذا شاکلت الحالة بین المسلمین و المشرکین حلت التقیةمحاماة علی النفس ؛شافعی کی رائے یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے آپسی حالات کفار اور مسلمین کے درمیان جیسی حالت ہوجائے تو جان بچانے کے لئے تقیہ حلال ہے ۔
اس کے بعد مال کو محفوظ رکھنے کے لئے تقیہ کے جائز ہونے کی دلیل پیش کرتے ہوئے حدیث نبوی کو ذکر کرتے ہیں : حرمة مال المسلم کحرمة دمہ ؛ مسلمانوں کے مال کا احترام ان کے خون کے احترام کے مانند ہے اور من قتل دون مالہ فھو شہید جو بھی اپنے مال کو بچانے کی خاطر مارا جائے تو وہ شہید ہوگا ۔ اور ان حدیثوں کے ذریعہ استدلال کرتے ہیں ۔
تفسیر نیشاپوری کہ جو تفسیر طبری کے حاشیہ میں درج ہے ، اس میں مذکور ہے کہ قال الامام الشافعی: تجوز التقیة بین المسلمین کما تجوز بین الکافرین محاماة عن النفس؛
مسلمانوں کے درمیان مال کی حفاظت کی خاطر تقیہ جائز ہے جس طرح کہ کفار اور مسلمانوں کے درمیان جائز ہے ۔
٣۔مقام توجہ ہے کہ بنی عباس کی خلافت کے دوران اہل سنت کے بعض محدثین قرآن کے قدیم ہونے کے عقیدہ کی وجہ سے خلفائے بنی عباس کی طرف سے شنکنجہ کا شکار تھے لیکن ان میں سے بعض محدثین نے تقیہ کرتے ہوئے قرآن کے حادث ہونے کا اقرار کر لیا اور نجات پاگئے .
مشہور مورخ ابن سعد طبقات میں اور طبری اپنی تاریخ میں دو خطوں کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جسے مامون نے بغداد کے داروغہ اسحاق بن ابراہیم کو لکھا تھا ۔
پہلے خط کے سلسلہ میں ابن سعد تحریر کرتے ہیں : مامون نے اسحاق بن ابراہیم کو لکھا کہ سات محدثین( محمد بن سعدکاتب واقدی، ابومسلم، یحیی بن معین ، زہیر بن حرب، اسماعیل بن داود ، اسماعیل بن ابی مسعوداور احمد بن الدورقی)کو حفاظت سے میرے پاس روانہ کرو، وہ لوگ جب مامون کے پاس آئے تو اس نے امتحان کی غرض سے سوال کیا کہ قرآن کے سلسلہ میں آپ لوگوں کا نظریہ کیا ہے ؟ سب نے مل کر جواب دیا کہ قرآن مخلوق ہے ( جب کہ محدثین کے درمیان قرآن کا قدیم ہونا مشہورتھا ) ۔
ہاں ! ان لوگوں نے مامون کے غضب سے بچنے کے لئے تقیہ کرلیا تھا اور قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار کرکے نجات پالی تھی ۔
دوسرا خط جسے طبری نے نقل کیا ہے وہ بھی مامون کی طرف سے بغداد کے داروغہ کے نام تھا ، جب مامون کا خط اسے ملا تو اس نے ٢٦ محدثین کو جمع کیا اور انہیں مامون کے خط سے آگاہ کیا، اس کے بعد ان میں سے ہر ایک کو اپنے عقیدہ کے اظہار کے لئے کہا ، ان میں سے چار محدثین کے سوا سب نے( تقیہ کرتے ہوئے) قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار کرلیا ۔
وہ چار محدثین کہ جنہوں نے اعتراف نہیں کیا تھا وہ احمد بن حنبل، سجادة ، القواریری اور محمد بن نوح تھے ، داروغہ نے حکم دیا کہ انہیں زنجیروں میں جکڑ کر زندان میں ڈال دیا جائے ، دوسرے دن دوبارہ انہیں حاضر کیاگیا اورپھر وہی سوال دہرایا گیا ،ان میں تنہا سجاد ة نے قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار کیا اور آزاد ہوگیا لیکن بقیہ محدثین نے اقرار نہیں کیا اور وہ دوبارہ زندان بھیج دئے گئے .
تیسرے دن دوبارہ ان تینوں کو حاضر کیا گیا، اس دن القواریری نے اقرار کرکے نجات پالی لیکن احمد بن حنبل اور محمد بن نوح نے اپنے اسی عقیدہ کو دوبارہ دہرایا توداروغہ نے انہیں طرطوس کی طرف جلاء وطن کردیا ۔
جب بعض لوگوں نے تقیہ کرنے والوں پر اعتراض کیا تو ان لوگوں نے کفار کے مقابلہ میں جناب عمار بن یاسر کی مثال پیش کی ۔
یہ تمام موارد اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جب بھی انسان سخت مصیبتوں میں گرفتار ہوجائے اور دشمنوں کے شر سے بچنے کا واحد راستہ تقیہ ہوتو وہ تقیہ کو اختیار کرسکتا ہے ،دشمن خواہ کافر ہو یا اپنا مسلمان ۔
(1) بحارالانوار ، جلد 109، ص 254_
(2) سورة آل عمران آیة 28_
(3) تفسیر کبیر فخر رازی، جلد 8 ص 13_
(4) تفسیر نیشابورى (تفسیر الطبرى کے حاشیہ پر) جلد 3، ص 118_
(5) طبقات ابن سعد، جلد 7،ص 167، چاپ بیروت_
(6) یہ شام میں دریا کے کنارے ایک شہر ہے (معجم البلدان جلد4، ص 30)_
عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma