٢۔ قرآن اور نماز کے اوقات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
شیعوں کا جواب
عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
ہم جب قرآن کا دقت سے مطالعہ کرتے ہیں تو ملاحظہ کرتے ہیں کہ خود قرآن مجید نے نماز کے لئے تین اوقات بیان کئے ہیں لیکن پھر بھی بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ نماز پانچ وقتوں میں واجب ہے ۔
ہمیں پانچ وقتوں میں نماز ادا کرنے کی فضیلت کا انکار نہیں ہے بلکہ اگرہمیں بھی اتنی فرصت مل جائے کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کریں تو کبھی بھی دریغ نہیں کریں گے لیکن کیا ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا واجب ہے ؟
سورہ ہودکی پہلی آیت میں ہے : ( واقم الصلوة طرفی النھار وزلفا من الیل) . اور پیغمبر آپ دن کے دونوں حصوں میں اور رات گئے نماز قائم کریں کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردینے والی ہیں ۔
طرفی النہار کی تعبیر نماز صبح کی طرف اشارہ ہے جو اول صبح میں ادا کی جاتی ہے اور نماز ظہرین کا وقت مغرب تک باقی رہتا ہے یعنی نماز ظہرین کے وقت کا مغرب تک باقی رہنا اس آیت سے بخوبی واضح ہے ۔
لیکن زلفا من الیل کی تعبیر میں زلف کا مطلب مختار الصحاح اور کتاب مفردات کے مطابق زلفة کی جمع ہے جو اول شب کے ایک حصہ کے معنی میں ہے یعنی نماز مغربین کی طرف اشارہ ہے ۔
لہذا اگر پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)نے نماز کو پانچ وقتوں میں ادا کیا ہے تو حتما ًان اوقات کی فضیلت تھی کہ جس کے ہم بھی معتقد ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کی آیت کے ظہور سے صرف نظر کرلیں اور دیگر تاویلات کا سہارا لیں ؟!
قرآن کی دوسری آیت سورہ بنی اسرائیل میں ہے : ( اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق اللیل وقرآن الفجر ان قرآن الفجر کان مشھودا) ؛ .
دلوک مائل ہونے کے معنی میں ہے اور اس آیت میں سورج کا نصف النہار کی لائن سے مائل ہونے کے معنی میں ہے یعنی اس سے مراد زوال ظہر ہے ۔
غسق الیل رات کے معنی میں ہے لیکن بعض لوگوں نے اوائل شب اور نصف شب کے معنی کئے ہیں اس لئے کہ مفردات کے مطابق غسق شدید تاریکی کو کہتے ہیں جس کا نصف شب پر اطلا ق ہوتا ہے ۔
لہذا دلوک الشمس نماز ظہرین کے وقت کی ابتدا اور غسق الیل نماز مغربین کے وقت کے تمام ہونے کی طرف اشارہ ہے اور قرآن الفجر نماز صبح کی طرف اشارہ ہے ۔
ان دو آیتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نماز یومیہ کے لئے صرف تین وقت ہیں لہذا انتین اوقات میں نماز کا ادا کرنا جائز ہے ۔
فخر رازی نے اس آیت کی تفسیر میں قابل توجہ نکتہ بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے : ان فسرنا الغسق بظھور اول الظلمة ( وحکاہ عن ابن عباس عطا والنضر بن شمیل ) کان الغسق عبارة عن اول المغرب وعلی ھذا التقدیر یکون المذکور فی الآیة ثلاث اوقات وقت الزوال ووقت اول المغرب ووقت الفجر
وھذا یقتضی ان یکون الزوال وقتا للظھر والعصر فیکون ھذا الوقت مشترکا بین الصلوتین وان یکون اول المغرب وقتا للمغرب والعشاء فیکون ہذا الوقت مشترکا ایضا بین ہاتین الصلوتین فہذایقتضی جواز الجمع بین الظہر والعصر والمغرب والعشاء مطلقا .
جب بھی غسق کے معنی اول شب کی تاریکی کے لئے جائیں گے ( جیسا کہ ابن عباس ، عطا اور نضر بن شمیل اسی نظریہ کے قائل ہیں) تو اس کے معنی اول مغرب کے ہوں گے لہذا اس آیت میںصرف تین وقتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : وقت زوال ، وقت اول مغرب اور وقت فجر۔
اس کے بعد اضافہ کرتے ہیں: پس اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ زوال سے مراد نماز ظہرین ہوگی جس میں یہ دونوں نمازیں مشترک ہیں اور اول مغرب سے مرادنماز مغربین ہوگی اور یہ بھی نماز ظہرین کی طرح اول مغرب میں مشترک ہو گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نماز ظہر و عصر کو اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ادا کرنا جائز ہو۔
ابھی تک فخر رازی نے انصاف سے کام لیا اور بخوبی مذکورہ آیت کی تفسیر کی لیکن وہ آگے چل کر کہتے ہیں : چونکہ ہمارے پاس دلیل ہے کہ دونمازوں کو کسی عذر اور سفر کے بغیر جمع کرنا جائز نہیں ہے لہذا اس آیت کو عذر سے مختص قرار دیتے ہیں ۔
لیکن ہم فخر رازی سے یہ کہیں گے کہ اس مدعا کے لئے نہ صرف یہ کہ کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ ایسی متعدد روایات ہیں جو اس مدعا کے خلاف ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو کسی عذر کے بغیر ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے .
تاکہ مسلمانوں کے لئے نماز ادا کرنا آسان ہو اور کن اصول کی بنیاد پر مذکورہ آیت کو عذر سے مختص کیا جاسکتا ہے ؟حالانکہ علم اصول کے مطابق تخصیص اکثر جائز نہیں ہے ۔
بہرحال کسی بھی حال میں مذکورہ آیت کے ظہور سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔
1) سورة ہود آیت 114_
2) سورة اسرائ، آیت 78_
3) تفسیر کبیر فخر رازى ، ج 21، ص 27_
4) سابقہ مدرک_
عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma