دو نمازوں کے اجتماع پر روایات کی تائید

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
شیعوں کا جواب
عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
اہلسنت کے مشہور منابع صحیح مسلم ، بخاری ، سنن ترمذی، موطامالک، مسند احمد، سنن نسائی ،مصنف عبد الرزاق اور دیگر کتابوں میں دونمازوں کے جمع کرنے کے سلسلہ میں کسی سفر یا بارش یا اضطرارکی علت کے بغیرتیس روایتیں نقل ہوئیں ہیں جو پانچ راویوں سے ہیں:
١۔ ابن عباس
٢۔ جابر ابن عبد اللہ انصاری
٣۔ عبد اللہ ابن عمر
٤۔ ابو ہریرہ
٥۔ابو ایوب انصاری
مذکورہ راویوں کی بعض روایات کو ملاحظہ کریں:
١۔ ابوزبیر سعید بن جبیر اور وہ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں : صلی رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)الظھر والعصر جمیعاب المدینة فی غیرخوف و لاسفر
رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم) نماز ظہر و عصر کو کسی خوف اور سفر کے بغیر ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے ۔
ابوزبیر کہتے ہیں : میں نے سعید بن جبیر سے سوال کیا کہ کیوں پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)اس طرح نماز ادا کیا کرتے تھے ؟ سعید نے جواب دیا: میں نے بھی یہی سوال جب ابن عباس سے کیا تو انھوں نے نے جواب دیا: اراد ان لایحرج احدا من امتہ
آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی نیت یہ تھی کہ ان کی امت کا کوئی بھی فرد زحمت میں نہ پڑے ۔
٢۔ ایک دوسری حدیث میں جناب ابن عباس فرماتے ہیں : جمع رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)بین الظھر والعصر والمغرب والعشاء فی المدینة فی غیر خوف و لا مطر آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)نے مدینہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو کسی بھی خوف اور بارش کے عذر کے بغیر ایک ساتھ ادا کی ۔ جب ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ اس سے آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی مراد کیا تھی ؟تو جواب دیا: اراد ان لایحرج ؛ یعنی آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) نہیں چاہتے تھے کہ ان کی امت کا کوئی بھی فرد زحمت میں پڑے ۔
٣۔عبد اللہ بن شقیق کا بیان ہے : خطبنا ابن عباس یوما بعد العصر حتی غربت الشمس و بدت النجوم و جعل الناس یقولون الصلاة الصلاة ! قال فجائہ رجل من بنی تمیم لا یفتر ولایتنی : الصلوة الصلوة فقال: ابن عباس اتعلمنی بالسنة ، لا ام لک ثم قال : رایت رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)جمع بین الظھر و والعصر والمغرب والعشاء قال عبد اللہ بن شقیق : فحاک فی صدری من ذلک شیء فاتیت اباھریرة فسالتہ ، فصدق مقالتہ
عبدا للہ بن شقیق کہتے ہیں : ایک روزجب ابن عباس نے ہمارے درمیان عصر کے بعد خطبہ کا آغاز کیا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور ستارے ظاہر ہوگئے تو لوگوں کی آوازیں بلند ہوگئیں نماز! نماز! اس کے بعد بنی تمیم کا ایک شخص آیا اور مرتب نماز نماز کہے جارہا تھا ، جناب ابن عباس نے اس سے کہا: کیا تو مجھے پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کی سنت کی تعلیم دینا چاہتا ہے ،
اے بے بنیاد ! آنحضرت مغرب و عشاء اور ظہر و عصر کو ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے ، عبد اللہ بن شقیق کا بیان ہے : میرے دل میں شک پید اہوا لہذا میں ابوہریرہ کے پاس آیا اور اس سے سوال کیا تو اس نے ابن عباس کی بات کی تصدیق کی ! ۔
٤۔ جابر بن زید کا بیان ہے کہ جناب ابن عباس نے فرمایا: صلی النبی سبعا جمیعا و ثمانیا جمیعا پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)نے سات رکعت ایک ساتھ اور آٹھ رکعت ایک ساتھ پڑھی ( مغرب و عشاء اور ظہر و عصر کی طرف اشارہ ہے ) ۔
٥۔سعید بن جبیر جناب ابن عباس سے نقل کرتے ہیں : جمع رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)بین الظھر والعصر وبین المغرب والعشاء بالمدینة من غیر خوف ولا مطر قال : فقیل لابن عباس: ما اراد بذلک ؟ قال : اراد ان لایحرج امتہ پیغمبر (صلی الله علیه و آله وسلم)نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اور بارش کے نماز ظہر وعصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ، کسی نے جناب ابن عباس سے سوال کیا: اس فعل سے آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی مراد کیا تھی ؟ فرمایا: آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) نہیں چاہتے تھے کہ ان کی امت زحمت میں پڑے ۔
٦۔احمد بن حنبل نے اسی مضمون کی روایت جناب ابن عباس سے اپنی مسند میں ذکر کی ہے ۔
٧۔ اہل سنت کے معروف امام مالک اپنی کتاب موطا میں مدینہ کا تذکرہ نہ کرتے ہوئے جناب ابن عباس سے روایت کرتے ہیں: صلی رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)الظھر والعصر جمیعا و المغر ب والعشاء جمیعا فی غیر خوف و لاسفر آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)نمازظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو بغیر کسی خوف اور بارش کے ایک ساتھ ادا کیا کرتے تھے ۔
٨۔ کتاب مصنف عبد الرزاق میں مذکور ہے کہ عبد اللہ ابن عمر نے کہا: جمع لنا رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)مقیما غیر مسافر بین الظھر والعصر والمغرب فقال رجل لابن عمر : لم تری النبی (صلی الله علیه و آله وسلم)فعل ذلک ؟ لان لا یحرج امتہ ان جمع رجل پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم)نے اس حال میں نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشا ء کو جمع کیا کہ آپ مسافر نہیں تھے ، کسی نے ابن عمر سے سوال کیا: پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کے اس عمل کی علت کیا ہوسکتی ہے ؟ کہا: اگر کسی شخص نے ان نمازوں کو جمع کیا تو ان کی امت کا کوئی فرد زحمت میں نہ پڑے( اور اس پر اعتراضنہ کیا جائے ) .
٩۔جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں : جمع رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)بین الظھر والعصر والمغرب والعشاء فی المدینة للرخص من غیر خوف ولاعلة رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)نے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کیا تاکہ امت کے پاس بغیر کسی خوف و علت کے ان نمازوں کو جمع کرنے کا جواز رہے ۔
١٠۔ ابوہریرہ کا بیان ہے : جمع رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)بین الصلوتین فی المدینة من غیر خوف آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)مدینہ میں دونمازوں کو کسی خوف کے بغیر جمع کیا کرتے تھے ۔
١١۔ عبد اللہ بن مسعود نقل کرتے ہیں : جمع رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)بین الاولیٰ والعصر والمغرب والعشاء فقیل لہ فقال : صنعتہ لئلا تکون امتی فی حرج
آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)نے مدینہ میں نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کیا ، جب کسی نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا: میں نے یہ کام اس لئے کیا ہے تاکہ میری امت زحمت میں نہ پڑے ۔
یہاں پر دو سوال کئے جاتے ہیں ۔
1) صحیح مسلم، جلد 2،ص 151_
2) صحیح مسلم، جلد 2،ص 152_
3) سابقہ مدرک_
4) صحیح بخارى ، جلد 1، ص 140 ( باب وقت المغرب)_
5) سنن ترمذى ، جلد 121 حدیث 187_
6) مسند احمد، جلد 1 ، ص 223_
7) مؤطا مالک، جلد 1 ، ص 144_
8) مصنف عبدالرزاق ، جلد 2 ، ص 556_
9) معانى الآثار، جلد 1 ، ص 161_
10) مسند البزّاز، جلد 1 ، ص 283_
11) المعجم الکبیر طہرانی، جلد 10، ص 219 ، حدیث 10525_
عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma