ایسے لوگوںکو اصطلاح میں ” مرتد“ کہتے ہیں ۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
اسلام تمام موجودات عالم کا دین ہے بے فائدہ توبہ

قرآن کہتا ہے : ایسے لوگوں کی ہدایت کے لئے خدا مدد نہیں کرتا کیونکہ ان لوگوں نے واضح علامات کے ذریعے پیغمبر کو پہچان لیا ہے اور اس کی رسالت کی گواہی دی ہے ۔ یہ لوگ اسلام سے عدول کر کے اور اس سے پھر کر ظالم اور ستمگر بن گئے ہیں اور خدا ظالموں اور ستمگروں کی ہر گز ہدایت نہیں کرتا ( وَاللهُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) ۔
” اٴُوْلَئِکَ جَزَاؤُهم اٴَنَّ عَلَیْہِمْ لَعْنَةَ اللهِ وَالْمَلاَئِکَةِ وَالنَّاسِ اٴَجْمَعِین“۔
اس آیت میں ایسے لوگوں کی سزائیں بیان کی گئی ہے جو پہچاننے کے بعد حق و عدول کرتے ہیںاور وہ ہے پروردگار ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت۔
” لعن “ اصل میں دھتکار نے اور غیظ و غضب کے ساتھ دور کرنے کے معنی میں ہے لہٰذا پروردگار کی لعنت کا مطلب اس کی رحمت سے دوری ہے ۔ باقی رہافرشتوں اور لوگوں کی لعنت ت وہ غصّہ ، تنفر اور معنوی طور پر سے یا پروردگار کی رحمت سے دور ہونے کی بد دعا ہے ۔
ایسے لوگ در حقیقت فساد اور گناہ میں اس طرح سے ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں کہ تمام عقلمندوں اور سارے جہان کے بامقصد افراد چاہے انسان ہوں یا فرشتے سب کے تنفر کا ہدف بن جاتے ہیں ۔
”خَالِدِینَ فِیہَا لاَیُخَفَّفُ عَنْهم الْعَذَابُ وَلهم یُنْظَرُونَ“۔
اس آیت میں مزید ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ صرف عمومی لعنت کا مرکز نہیں ہیں بلکہ ہمیشہ لعنت کا شکار رہیں گے ۔ درحقیقت شیطان کی طرح ہیں جو ہمیشہ لعنت میں گرفتار رہتا ہے ۔ مسلم ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ درد ناک اور ناقابل تخفیف عذاب میں مبتلا ہوں گے اور انہیں کسی قسم کی مہلت نہیں دی جائے گی ۔
” إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ وَاٴَصْلَحُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ “۔
یہ آیت مندرجہ بالا احکام میں استثنائی صورت بیان کرتی ہے ۔ اس آیت نے ایسے افراد کے لوٹ آنے کی راہ کھول دی ہے لیکن بہت سی دیگر آیات ِ قرآنی کی طر ح مسئلہ تو بہ کی طرف اشارہ کرنے کے بعد گذشتہ غلط کایوں کی تلافی کی طرف اشار ہ کیا گیا ہے ۔ ” و اصلحوا“ کے ذریعے یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ توبہ صرف گذشتہ گناہ پر پشمانی اور آئندہ نیک اعمال کے ذریعے گذشتہ برے اعمال کی تلافی کی جائے ۔ اسی لئے بعض آیات میں توبہ کے بعد ایمان اور عمل صالح کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ مثلاً
”لِمَنْ تابَ وَ اٰمنَ و عَمِلَ صالِحا ۔“ طٰہٰ: ۸۲
مگر وہ شخص جو توبہ کر ے اور ایمان لائے اور عمل صالح انجام دے ۔ ورنہ اس کی توبہ کامل و مکمل نہیں ہے ۔
ایسے افراد بخشش اور رحمت ِ خدا کے حق دار ہوں گے ۔
فَاِنّ اللّہ غَفُوْر ٌ رَحِیْم ٌ“۔
کیا مرتد کی توبہ قبول ہو جاتی ہے
مندرجہ بالا آیت اور شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اسلام قبول کرکے اس سے پلٹ جائیں دو قسم کے ہیں :
ص ۴۰۱ باقی رہ گیا ہے

۹۰۔ إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِہِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا کُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهم وَاٴُوْلَئِکَ هم الضَّالُّونَ۔
ترجمہ
۹۰۔ جو لوگ ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے ہیں اورپھر ( اپنے ) کفر میں بڑھ گئے ہیں ( اور اس راہ میں اصرار کرتے ہیں ) تو ان کی توبہ کبھی بھی( جومجبوری کی بناء پر ہو یا مرتے وقت کی جائے) قبول نہیں ہوگی اور وہ (واقعاً)گمراہ ہیں ( اور وہ خدا کی راہ بھی کھو چکے ہیں اور توبہ کی بھی ) ۔

شان نزول :

جیسا کہ سابقہ آیات کی شان نزول میں اشارہ ہوا ہے حارث بن سوید اور اس کے گیارہ ساتھی بوجہ اسلام سے پلٹ گئے تھے ۔ حارث تو پشمان ہوا ا ور توبہ کرکے پیغمبر اسلام کی خدمت میں واپس آگیا لیکن دوسرے افراد اس کے ساتھ لوٹ کر نہ آئے اور اس کی دعوت کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم مکہ میں رہیں گے اور محمد (صلی الله علیه و آله وسلم) کے خلاف کام کرتے رہیں گے اور ہمیں امید ہے کہ انہیں شکست ہوگی، اگر ہمارا مقصد پورا ہوگیا تو کیا ہی اچھا ہے ۔ ورنہ توبہ کا راستہ تو کھلا ہی ہے ، جب چاہیں گے توبہ کرلیں گے اور محمد (صلی الله علیه و آله وسلم) کی طرف پلٹ آئیں گے اور وہ بھی ہماری توبہ قبول کرلیں گے ۔
بعض مفسرین نے اس آیت کی ایک اور شانِ نزول نقل کی ہے ۔ اس کے مطابق مذکورہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو پیغمبر اسلام کے ظہور سے قبل لوگوں کو آپ کے ظہور کی بشارت دیتے تھے اور آپ سے ایمان اور وفا داری کا اظہار کرتے تھے لیکن بعثت کے بعد نہ صرف یہ کہ وہ کافر ہو گئے بلکہ آپ کے مقابلے پر آکھڑے ہوئے ۔

اسلام تمام موجودات عالم کا دین ہے بے فائدہ توبہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma