لغت میں ”محاجّہ“

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
مذہبی اختلافات کا سر چشمہ( انہیں دردناک عذاب کی بشارت دیجئے )

لغت میں ”محاجّہ“ بحث ، مباحثہ ، گفتگو ، استدلال اور کسی عقیدے کے دفاع کو کہتے ہیں ، یہ فطری امر ہے کہ ہر دین کے طرفدار اپنے مقصد اور عقیدے کا دفاع کرتے ہیں اس سلسلے میں اپنے آپ کو حقدار قرار دیتے ہیں اس لحاظ سے قرآن رسول اللہ سے کہتا ہے : ہو سکتا ہے اہل کتاب ( یہود و نصاریٰ وغیرہ ) تم سے بحث کریں اور کہیں کہ تم حق کے سامنے تسلیم ہیں اور حق کی طرفداری کے معنی میں اسلام کے پیروکار ہیں ، یہاں تک کہ وہ اس بارے میں اپنی استقامت و پائیداری کا مظاہرہ کریں جیسا کہ نجران کے عیسائیوں نے بھی پیغمبر اسلام سے ایسی ہی گفتگو کی تھی ۔
مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام کو یہ حکم نہیں دیا کہ اہل کتا سے بحث مباحثہ اور گفتگو ہی نہ کی جائے بلکہ یہاں ایک اور حکم دیا گیا ہے ج سکے مطابق جب بحث آخری مرحلے تک پہنچ جائے تو اس وقت نہ ان کی راہنمائی کی ضرورت ہے نہ مخاصمت و مجادلہ کی ۔ بہترین راستہ یہ ہے کہ اگر وہ بھی خدا کے سامنے تسلیم ہیں اور پیروحق ہیں تو انہیں چاہئیے کہ منطقی گفتگو کے سامنے سر جھکا دیں اور اس صورت میں ان سے بحث و مباحثہ اور گفتگو کی کو ئی ضرورت نہیں کیونکہ اس مقام پر گفتگو بے محل اور بے اثر ہے اور تبلیغ رسالت کے علاوہ کوئی چیز تم پر لازم نہیں ہے ۔
”فان اسلموا فقد اھتدوا و ان تولّوا فانّما علیک البلاغ“
خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال و فکا رکو دیکھتا ہے ” و اللہ بصیر بالعباد “

 

اس مقام پر چند نکات قابل توجہ ہیں :

 

 ۱۔ آیت سے ضمنی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ہٹ دھرم افراد سے بحث مباحثے سے پرہیز کرنا چاہئیے جو صحیح منطق کو تسلیم نہیں کرتے ۔
۲۔ ”امیین “( امّی اسے کہتے ہیں جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو ۔ )سے اس آیت میں مراد ” مشرکین “ ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا ذکر بھی کتاب (یہود و نصاریٰ ) کے مقابلے میں آیا ہے اور ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں تھی کہ جس کی وجہ سے وہ پڑھنے لکھنے پر مجبور ہوتے ۔
۳۔ اس آیت سے مکمل طور پر واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کا طریقِ کار فکر و نظر اور عقیدہ ٹھونسنا نہیں تھا ، بلکہ آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں پر حقائق آشکار ہوجائیں اور پھر انہیں ان کی حالت پر چھو ڑ دیا جائے تاکہ وہ خود حق کی پیروی کے لئے عزم صمیم کریں ۔

۲۱۔ إِنَّ الَّذِینَ یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللهِ وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّینَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَیَقْتُلُونَ الَّذِینَ یَاٴْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنْ النَّاسِ فَبَشِّرْهم بِعَذَابٍ اٴَلِیمٍ ۔
۲۲ اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ حَبِطَتْ اٴَعْمَالُهم فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَھُمْ مِنْ نَاصِرِینَ ۔
ترجمہ
۲۱۔ جو لوگ آیاتِ خدا سے کفرکرتے ہیں انبیاء کو ناحق قتل کرتے ہیں اور عدل کا حکم دینے والوں کو بھی قتل کردیتے ہیں انہیں دردناک عذاب کی بشارت دیجئے ۔
۲۲۔ وہ ایسے لوگ ہیں جن کے نیک اعمال ( ان عظیم گناہوں کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں تباہ ہو گئے ہیں اور ان کا کوئی یار و مدد گار ( اور شفاعت کرنے والا ) نہیں ہے ۔

 

 

مذہبی اختلافات کا سر چشمہ( انہیں دردناک عذاب کی بشارت دیجئے )
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma