لغزشوں سے رهایی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
(6) آیت کی تفسیر کے سلسلے میں نتیجہ ٴ کلام ایک صریح پیشین گوئی

ممکن ہے کہ آیات متشابہ اور ان کے حقیقی اسرار و رموز لوگوں کے لئے مقام لغزش ہوجائیں لہٰذا اہل ایمان ، راسخین فی العلم اور صاحبان ِ فکر و نظر آیات کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے اپنی علمی سرمائے سے کام لینے کے علاوہ اپنے خدا کی پناہ اور بہارا بھی حاصل کرتے ہیں اور یہ دونوں آیات جو راسخون فی العلم کی زبان سے نقل ہوئی ہیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ علم میں راسخ، آگاہ اور فکر و نظر کے حامل لوگ ہمیشہ اپنے قلب و روح کی حفاظت کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ ٹیڑھے راستوں کی طرف مائل نہ ہوں اور وہ اس راہ میں خدا سے مدد طلب کرتے ہیں کیونکہ بہت سے لوگ علمی غرور تکبر کے باعث شکست سے ہمکنار ہوگئے ہیں اور کج راستوں میں سر گرداں ہیں وہ خالق کی عظمت ، اپنی خلقت اور کم علمی کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور اپنے پروردگار کی ہدایت سے محروم ہوگئے ہیں ۔ لیکن اہل ایمان اور صاحبان اور صاحبان فکر و نظر کہتے ہیں
”رَبَّنَا لاَتُزِغْ قُلُوبَنَا “
علاوہ از یں افکار و نظر یات کو کنٹرول کرنے کے لئے معاد اور قیامت کے اعتقاد سے بڑھ کر کوئی چیز موٴثر نہیں راسخین فی العلم مبداء و معاد کے عقیدے کے ذریعے اپنے افکار کو اعتدال پر رکھتے ہیں ۔ وہ حد سے گزرے ہوئے رجحانات اور جذبات سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ یہ لغزش کا سبب بنتے ہیں ۔ اس طرح وہ ایک درست اور بے رحم مزاحم فکر و نظر کے ذریعے صحیح راستے کو دیکھتے ہیں اور اس پر چلتے ہیں ۔
ہاں ایسے ہی افراد آیات ِ الہٰی سے مکمل طور پر استفادہ کرسکتے ہیں ۔
در حقیقت پہلی آیت مبداء کے بارے میں ان کے کامل ایمان کی طرف اشارہ ہے اور دوسری آیت معاد کے بارے میں ان کے راسخ عقیدے کا اظہار ہے ۔
۱۰۔ إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهم اٴَمْوَالُهم وَلاَاٴَوْلاَدُهم مِنْ اللهِ شَیْئًا وَاٴُوْلَئِکَ هم وَقُودُ النَّارِ۔
۱۱۔کَدَاٴْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا فَاٴَخَذَھُمْ اللهُ بِذُنُوبِہِمْ وَاللهُ شَدِیدُ الْعِقَابِ ۔
ترجمہ
۱۰۔ جو لوگ کافر ہوگئے ہیں انہیں مال و دولت اور اولاد خدا سے بے نیاز نہیں کرسکتے ( اور وہ انہیں اس کے عذاب سے نہیں چھڑا سکتے) اور وہ (جہنم کی ) آگ کا ایندھن ہیں ۔
۱۱۔ (انکار حقائق اور تحریف میں ) ان کی عادت آل فرعون اور ان سے پہلے لوگوں کی طرح ہے ،انہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور خدا نے ان کے گناہوں کے باعث ان کی گرفت کی اور خدا شدید العقاب ہے ۔

تفسیر

گذشتہ آیات میں محکم اور متشابہ آیات کے ساتھ کفار، منافقین اور مومنین کے رویّے کی تشریح کی گئی ہے ، اس کے بعد اب فرمایا گیا ہے : اگر ہٹ دھرم کافر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مال و دولت اور آل اولاد دوسرے جہاں میں انہیں بچا سکتے ہیں تو وہ سخت اشتباہ میں ہیں ، ممکن ہے یہ اس جہاں میں وقتی طور پر کچھ حوادث کے مقابلے میں انسان کے کام آجائیں لیکن پروردگار کے مقابلے میں اس دنیا میں اور دوسرے جہاں میں ان کی کوئی حیثیت نہیں لہٰذا یہ چیزیں کسی غرور اور جراٴت ِ گناہ کا باعث نہیں بنا چاہئیں ۔ آیت کے آخر میں کہا گیا ہے وہ جلاڈالنے والی آگ میں گرفتار ہوں گے جس کا وہ خود ایندھن بنیں گے ۔ -( و اولٰئک ھم وقود النار ):
مندرجہ بالا تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کی آگ کے شعلے گناہگاروں کے وجود کے اندر سے اٹھیں گے اور انہیں کا وجود ان میں آگ لگا دے گا نہ کہ کوئی چیز ۔ البتہ کچھ آیات ایسی ہیں جن میں بتا یا گیا ہے کہ دوزخ کا ایندھن گناہگاروں کے علاوہ پتھر بھی ہوں گے لیکن جیسے جلد اول سورہ بقرہ آیہ ۲۴ کے ذیل میں کہا جا چکا ہے کہ ممکن ہے ان سے وہ بت مراد ہوں جو وہ پتھر سے بناتے تھے ۔ اس طرح جہنم میں آگ ان کے وجود سے ، باطل اعمال سے اور جھوٹے معبودوں سے شعلے بن کر نکلے گی ۔
کداٴب آل فرعون
”داٴب“ اصل میں ” سیر و حرکت کے دائم و قائم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور ہر ” مسلسل کا اور عادت“ کے مفہوم میں بھی مستعمل ہے ۔
مندر جہ بالا دوسری آیت میں پیغمبر اکرم کے دور کے کفار کی حالت کو آل فرعون اور ان سے پہلی قوموں کی غلط اور مستقل عادت و سیرت سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ وہ لوگ آیاتِ خدا کی تکذیب کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی ان گناہوں کی وجہ سے گرفت کی اور و ہ اسی جہاں میں سخت سزااور عذاب میں مبتلا ہوئے ۔
در حقیقت یہ پیغمبر اکرم کے زمانے کے ہٹ دھرم کا فروں کو تنبیہ ہے کہ وہ آل فرعون اور ان سے پہلی قوموں کی حالت کو نظر میں رکھیں اور اپنے اعمال کا جائزہ لیں ۔
یہ صحیح ہے کہ خدا ارحم الراحمین ہے لیکن اپنے مقام پر اور بندوں کی تربیت کے لیے وہ شدید العقاب بھی ہے لہٰذا پروردگار کی وسیع رحمت کہیں کسی کے لئے غرور و تکبر کا باعث نہ بن جائے ۔
لفظ ”داٴب“سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت کے مقابلے میں ان کی ہٹ دھر می کا یہ غلط انداز اور تکذیب ِ آیات الہٰی ان کی عادت بن چکی تھی ۔ اسی لئے انہیں سخت سزا اور عذاب سے ڈرایا گیا ہے کیونکہ جب تک گناہ اور تجاوز کسی کی عادت اور راہ رسم نہ بن جائے اس کا لوٹ آنا آسان ہے اور اس کی سزا نسبتاً کم ہے لیکن جب وہ وجود ِ انسانی میں نفوذ کرلے تو پھر لوٹ آنا مشکل ہے اور اس کی سزا بھی سخت ہے لہٰذا کیا ہی اچھا ہے کہ کافر گناہگارجب کہ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا غلط راستے سے لوٹ آئیں ۔
۱۲ قُلْ لِلَّذِینَ کَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَی جَہَنَّمَ وَبِئْسَ الْمِہَادُ ۔
ترجمہ
۱۲۔ جو کافر ہو گئے ہیں ان سے کہہ دیجئے جنگ احد کی وقتی فتح پر خوش نہ ہو جاوٴ عنقریب تم مغلوب ہو جاوٴ گے ( اور پھر آخرت میں ) جہنم کی طرف محشور ہو گے اور وہ کس قدر بر جگہ ہے ۔

شان نزول

جنگ بدر اوراس میں مسلمانوں کی کامیابی کے بعد بعض یہودی کہنے لگے : جس رسول ِ امّی کی تعریف و توصیف ہم نے اپنی مذہبی کتاب تورات میں پڑھی ہے کہ وہ کسی جنگ میں مغلوب نہیں ہوگا وہ یہی پیغمبر ہے ۔
اس پر بعض دوسرے کہنے لگے جلدی نہ کرو ، دوسری اور کوئی اور واقعہ پیش آلینے دو، پھر فیصلہ کرنا ، جب جنگ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو وہ کہنے لگے: بخدا یہ وہ پیغمبرنہیں جس کی بشارت ہماری کتاب میں دی گئی ہے ۔
اس واقعے کے بعد صرف یہی نہیں کہ مسلمان نہ ہوئے بلکہ ان کے روے میں مزید سختی آگئی اور وہ مسلمانوں سے اور دور ہوگئے یہاں تک کہ انہوں نے رسول خدا سے جو لڑائی جھگڑا نہ کرنے کا معاہدہ کر رکھا تھا اسے بھی معینہ مدت سے پہلے توڑ دیا ۔
کعب بن اشرف کی ہمراہی میں ان کے ساٹھ سوار مکہ پہنچے اور اسلام کے خلاف جنگ کے لئے مشرکین سے معاہدہ کرکے مدینہ واپس آگئے ۔
اس دوران میں مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی جس میں انہیں دندان شکن جواب دیا گیا اور کہا گیا کہ نتیجہ تم کام کے انجام پر اخذ کرنا اور یہ جان لو کہ تم سب مغلوب ہو جاوٴ گے ۔

 

(6) آیت کی تفسیر کے سلسلے میں نتیجہ ٴ کلام ایک صریح پیشین گوئی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma