مکتب و ہدف کا رشتہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
” یٰا ھل الکتاب لم یحآجّون فیّ ابراہیم ..............“یهودیوں کے وسوسه

” إِنَّ اٴَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ .......“
خدا کے عظیم پیغمبر حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے بارے میں اہل کتاب کی باتوں کے خاتمے کے لیے قرآن نے یہاں ایک بنیادی بات کی ہے نیز ان میں سے ہرایک انہیں اپنے میں سے سمجھتا تھا اور شاید زیادہ تر اس عظیم پیغمبر سے قرابت کے مسئلہ کاسہارا لیتے تھے یا نسب و قومیت کو ان سے قربت کی دلیل سمجھتے تھے اس لیے قرآن نے وضاحت کی ہے کہ انبیاء سے دوستی او ر ارتباط صرف ایمان اور ان کی پیروی کے ذریعہ ہوتا ہے ، اس بناء پر ابراہیم (علیه السلام)سے زیادہ وفادار ہیں چاہے وہ لوگ جو ان کے زمانے میں موجود تھے ” للذین اتبعوہ “ اور چاہے وہ لوگ جو ان کے بعد مکتب اور پروگرام کے وفادار رہے ۔
مثلاً پیغمبر اسلام اور آپ کے پیروکار ۔ اس کی دلیل بھی واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ انبیاء کا احترام ان کے مکتب ومذہب کی وجہ سے تھانہ کہ ان کی قوم ، قبیلے اور نسب کے سبب۔ لہٰذا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اہل بیت کتاب اپنے مشر کانہ عقائد کی وجہ سے حضر ت ابراہیم (علیه السلام)دعوت کی سب سے اہم بنیاد ہی سے منحرف ہو گئے ہیں جب کہ پیغمبر اسلام اور مسلمان اس بنیاد پر قائم ہیں اور اس اصل کو اسلام کے تمام اصول و فروع میں وسعت دیتے ہوئے اس کے مخلص ترین وفادار ہیں ۔ اس لئے یہ اعتراف کرنا چاہئیے کہ ابراہیم (علیه السلام) سے زیادہ قریب یہ لوگ ہیں نہ کہ وہ ۔
مندرجہ بالا آیت میں انبیاء سے رابطے کے لئے صرف مکتب و ہدف سے ربط کو دلیل شمار کیا گیا ہے اور کسی اور چیز کو نہیں لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ پیشوایان اسلام سے مروی روایات میں صراحت سے اسی کا سہارا لیا گیا ہے ۔ ان میں سے ایک روایت تفسیر ” مجمع البیان ” اور ” نو ر الثقلین “ میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے ۔ آپ (علیه السلام) نے فرمایا :
” انّ اولی النّاس بالانبیاء اعملھم بما جاء وا بہ ثمّ تلا ھٰذہ الاٰیة ۔ وقال انّ ولی محمد من اطاع اللہ و ان بعدت لحمتہ و انّ عدوّ محمد من عصی اللہ و ان قربت قرابتہ۔“
”انبیاء سے قریبی تعلق رکھنے والے لوگ وہ ہیں جو ان احکام پر سب سے زیادہ عمل کرتے ہیں  محمد کا دوست وہ ہے جو فرمان خدا کی اطاعت کرتا ہے اگر چہ نسبی طور پر وہ آپ سے دور ہو اور محمد کا دشمن وہ ہے جو خدا کی نافرمانی کرتا ہے اگر چہ وہ محمد کا نزدیکی قرابت دار ہو “
”و اللہ ولی المومنین “۔
آیت کے آخر میں خدا کے عظیم پیغمبروں کے مکتب کے حقیقی پیروکاروں کو بشارت دی گئی ہے کہ خدا ان کا ولی ، سر پرست ، محاظ، یا ور اور نگہبان ہے ۔

۶۹۔وَدَّتْ طَائِفَةٌ مِنْ اٴَہْلِ الْکِتَابِ لَوْ یُضِلُّونَکُمْ وَمَا یُضِلُّونَ إِلاَّ اٴَنْفُسَهم وَمَا یَشْعُرُونَ ۔
ترجمہ
۶۹۔ اہل کتاب ( یہود) کا ایک گروہ چاہتا تھا کہ تمہیں گرماہ کردے لیکن ( انہیں جالینا چاہیئے کہ وہ تمہیں گمراہ نہیں کرسکتے) وہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں ، مگر سمجھتے نہیں ۔

شان نزول ;

بعض مفسرین نے نقل کیا ہے کہ بعض یہودیوں کی کوشش تھی کہ پاک دل مسلمانوں میں سے مشہور افراد مثلاً معاذ اور عمار وغیرہ کو اپنے دین کی طرف دعوت دیں اور شیطانی وسوسوں کے ذریعے انہیں اسلام سے موڑ لیں ۔ اس پرمندرجہ بالاآیت نازل ہوئی جس کے ذریعے تمام مسلمانوں کو اس سلسلے میں خطرے سے باخبر کیا گیا ہے ۔

” یٰا ھل الکتاب لم یحآجّون فیّ ابراہیم ..............“یهودیوں کے وسوسه
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma