اے عیسیٰ میں تمہیں لے لوں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
خدائی مکر سے کیا مراد ہے ۔کیا اہل یہود اور مسیح (علیه السلام) کا دین باقی رہے گا

ہم نے کہا ہے کہ یہود یوں نے بعض جرائم پیشہ عیسائیوں کو مدد سے حضرت مسیح (علیه السلام) کے قتل کا مصمم ارادہ کرلیا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے ان کی سازشوں کو نقش بر آب کردیا اور اپنے پیغمبر کو ان کے چنگل سے رہائی نخشی ۔ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے اس سے پہلے جو احسان حضرت مسیح (علیه السلام) پر کیا اس کا ذکر فرمایا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: اے عیسیٰ میں تمہیں لے لوں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا(”اِنّی متوفیک و رافعک الیّ“۔)
سورہٴ نساء کی آیت ۱۵۷ سے استفادہ کرتے ہوئے مفسرین میں یہ مشہور ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیه السلام) قل نہیں ہوئے اور خدا انہیں آسمان کی طرف لے گیا ۔ لیکن خود عیسائی موجود اناجیل کے مطابق کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ قتل ہوئے اور بعد از آں انہیں دفن کردیا گیا، پھر وہ مردوں کے درمیان سے اٹھے، تھوڑی مدت زمین پر رہے اور آسمان کی طرف اٹھ گئے ۔
المندر کے موٴلف کی طرح بعض مفسرین اسلام کا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح (علیه السلام) قتل ہوئے اور خدا صرف ان کی روح کو آسمان کی طرف لے گیا ۔
اس بارے میں ضروری گفتگو اور یہ کہ ان دو نظریوں میں سے کونسا حق ہے اس سلسلے میں بحث انشاء اللہ سورہ نساء کی آیت ۱۵۷ کے ذیل میں آئے گی ۔
یہاں جس بات کی طرف توجہ ضروری ہے ، یہ ہے کہ محل بحث آیت عیسیٰ کی موت پر دلالت نہیں کرتی اگر چہ یہ تصور کرتے ہیں کہ ” متوفّیک “کا مادہ ہے ” وفات“ اور یہ موت کے معنی میں ہے ۔
اس لئے ان کا خیا ل ہے کہ جو عقیدہ مسلمانوں میں مشہور ہے کہ حضرت عیسیٰ نے وفات نہیں پائی اور وہ زندہ ہیں اس مفہوم کے منافی ہے کہ حالانکہ احادیث بھی اس عقیدہ کی تائید کرتی ہیں نیز ، فوت ہاتھ سے نکل جانے کے معنی میں ہے اور توفی (بروزن ترقی ) ” وفی“کے مادہ سے ہے جس کا مطلب ہے ” کسی چیز کی تکمیل کرنا“ عہد و پیمان پر عمل کرنے کو ” وفا “ بھی تکمیل کرنے اور اسے انجام تک پہنچانے کی وجہ سے کہتے ہیں ۔ اسی بناء پر اگر کوئی شخص کا مل طور پر اپنا حق دوسرے سے اپنی تحویل میں لے لے تو عرب کہتے ہیں ” توفی دینہ “ یعنی اپنا حق پورا پورا وصول کرلیا ۔
آیات قرآنی میں بھی ” توفی“ بارہا ” لینے “ کے معنی استعمال ہو اہے ۔ مثلاً ” وھو الذی یتوفٰکم بالیل و یعلم ماجرحتم بالنھار“۔
وہ ذات وہ ہے جو تمہاری روح کو رات کے وقت لے لیتی ہے اور جو کچھ تم دن کو انجام دیتے ہوئے اس سے آگاہ ہے ۔ ( انعام ۔ ۶۰)
اس آیت میں نیند کو ” توفی روح “ کہا گیا ہے ۔ یہی معنی سورہ زمر کی آیہ ۴ میں بھی آیا ہے ۔ قرآن کی متعدد دیگر آیات میں بھی ” توفی“ ” لینے “ کے معنی میں نظر آتا ہے ۔
یہ صحیح ہے کہ ” توفی “ بعض اوقات ” موت “ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے لیکن وہاں بھی در حقیقت موت کے مفہوم میں نہیں بلکہ روح کو اپنی تحویل میں لینے کے معنی میں ہے ۔ اصولی طور پر ” توفی “ کے معنی میں ” موت“پوشیدہ نہیں ہے ، اور ”وت“ کا مادہ” وفی “ کے مادہ سے بالکل جدا ہے ۔
جو کچھ کہا جا چکا ہے ا س کی طرف توجہ کرتے ہوئے محل بحث آیت کی تفسیر پورے طور پر واضح ہوجاتی ہے ۔ خدا وندعالم فرماتا ہے :۔ اے عیسیٰ میں تجھے اپنی تحویل میں لے لوں گا ، تجھے ، اٹھالے جاوٴں گا اور یہ مفہوم حضرت عیسیٰ کی حیات اور زندگی پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی موت پر ( غور کیجئے) ۔ ”و مطھّرک من الذین کفروا“۔
پروردگار نے حضرت عیسیٰ سے جو خطاب فرمایا اس جملے میں ا س ایک حصہ آیا ہے ۔ ارشاد ہے : جو کافر ہیں ان سے میں تمہیں پاک و پاکیزہ رکھوں گا ۔ اس پاکیزگی سے مراد بے ایمان ، ناپاک اور حق و حقیقت سے ہٹے ہوئے افراد کے چنگل سے نجات دینا ہے ۔ وہ کوشش کرتے تھے کہ نا روا تہمتوںسے پاک کیا جیسا کہ سورہ فتح میں پیغمبر ِ اسلام کے بارے میں ہے :۔
”انّا فتحنالک فتحاً مبیناً لیغفر لک اللہ ماتقدم من ذنبک و ما تاخّر“۔
” ہم نے تمہیں واضح کامیابی عطا فرمائی تاکہ خدا تمہارے گذشتہ اور آئندہ گناہ بخش دے ( اور تمہیں ان تہمتوں سے جو گناہ کی شکل میں دشمنوں نے تم سے باندھ دی تھیں ، پاک رکھے) ( فتح ۔ ۱،۲)
یہ بھی ممکن ہے کہ پاک کرنے سے مراد حضرت مسیح کو اس آلودہ ماحول سے باہر نکالنا ہو اور اس جملے سے پہلے والے جملے سے بھی یہی معنی مناسبت رکھتا ہے ۔
”وَجَاعِلُ الَّذِینَ اتَّبَعُوکَ فَوْقَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ “
اس کے بعد فرما یا گیا ہے : تیرے پیروکاروں کو قیامت تک کے لئے کافروں پر بر تری دوں گا ۔ یہ ایک بشارت ہے جو....... خدا نے حضرت مسیح (علیه السلام) اور ان کے پیرو کاروں کو دی تاکہ جو راہ انہوں منتخب کی تھی اس پر چلتے رہنے کے لئے ان میں ولولہ پیدا ہو ۔ در حقیقت یہ آیت قرآن کی معجزنمائیوں اور غیبی پیشین گو ئیوں میں سے ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح کے پیروکارہمیشہ یہویوں پر جوکہ مسیح (علیه السلام) کے مخالف تھے ۔برتر رہیں گے ۔
آج کی دنیا میں ہم یہ حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ یہودی اور صہیونی عیسائیوں سے وابستگی اس پر بھروسہ کئے بغیر ایک دن بھی سیاسی اور سماجی طور پر زندہ نہیں رہ سکتے ۔ واضح ہے کہ ” الذین کفروا“۔ سے مراد وہی یہودی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کا انکار کیا ۔
کیا اہل یہود اور مسیح (علیه السلام) کا دین باقی رہے گا

خدائی مکر سے کیا مراد ہے ۔کیا اہل یہود اور مسیح (علیه السلام) کا دین باقی رہے گا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma