(5) کیا ” راسخون فی العلم “ ایک مستقل جملے کی ابتداء ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
۴۔” راسخون فی العلم “ کون ہیں ?(6) آیت کی تفسیر کے سلسلے میں نتیجہ ٴ کلام

یہاں مفسرین اور علماء ایک اہم بحث کرتے ہیں وہ یہ کہ کیا ” راسخون فی العلم “ ایک مستقل جملے کی ابتداء ہے یا عطف سے ” الاّ اللہ “ سے منسلک ہے ۔
دوسرے لفظوں میں : کیا آیت کا معنی یہ ہے کہ :
قرآن کی تاویل خدا اور راسخون فی العلم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا یا اس کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کی تاویل صرف اللہ ہی جانتا ہے ، باقی رہے راسخون فی العلم تو وہ کہتے ہیں اگر چہ آیاتِ متشابہ کی تاویل ہمیں معلوم نہیں تا ہم ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور وہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں ۔
ان دونوں نظر یات کے طرفداروں نے اپنے اپنے موقف کی تائید کے لئے شواہد پیش کئے ہیں لیکن جو چیز آیت میں موجود قرائن اور مشہور رویات سے ہم آہنگ ہے یہ ہے کہ ” الراسخون فی العلم “ کا عطف ” اللہ “ پر ہے اور یہ آپس میں منسلک ایک ہی جملہ ہے کیونکہ :
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بہت بعید ہے کہ قرآن میں کچھ ایسی آیات بھی ہوں کہ جن کے اسرار خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہ جانتا ہو ۔ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا یہ آیات لوگوں کی تر بیت اور ہدایت کے لئے نازل نہیں ہوئیں ۔ اگر اسی لئے نازل ہوئی ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ خود پیغمبر اکرم کہ جن پر قرآن نازل ہوا ہے وہ ان کے معانی اور تاویل سے بے خبر ہوں کیونکہ یہ تو بالکل اسی طرح ہوگا کہ ایک شخص کوئی ایسی کتاب لکھے کہ جس کے بعض جملوں مفہوم خود اس کے علاوہ کوئی نہ سمجھ سکے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ مرحوم طبرسی مجمع البیان میںکہتے ہیں :
کبھی نہیں دیکھا کہ مفسرین اور علماء اسلام کسی آیت کی تفسیر پر بحث کرنے میں احتراز کریں اور یہ کہیں کہ یہ آیت ان آیات میں سے ہے کہ جس کے حقیقی معنی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا بلکہ سبھی ہمیشہ قرآن کے اسرار و معانی معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر مقصد یہ ہے کہ راسخون فی العلم جس چیز کو نہیں جانتے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں تو پھر زیادہ مناسب یہ تھا کہ ایمان میں راسخ وہ لوگ ہیں ، کیونکہ علم میں راسخ ہونا تو تاویل قرآن سے آگاہی سے مناسبت رکھتا ہے نہ کہ عدم آگاہی اور سر تسلیم خم سے ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ بہت سی روایات جو اس آیت کی تفسیر میںمنقول ہیں سب کی سب تائید کرتی ہیں کہ ” راسخون فی العلم “ وہ لوگ ہیں جو آیات قرآنی کی تاویل کو جانتے ہیں ۔
ان دلائل کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عطف لفظ ” اللہ “ پر ہے اور” و الراسخون فی العلم “نئے جملے کا آغاز نہیں ہے ۔
جو چیز باقی رہ جاتی ہے وہ نہج البلاغہ کے خطبہ ” اشباح“ کا ایک جملہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ الراسخون فی العلم آیات کی تاویل سے ناواقف ہیں اور وہ اپنے عجز و ناتوانی کا اعتراف کرتے ہیں :
” و اعلم ان الراسخین فی العلم ھم الذین اغناھم عن اقتحام السدد المضروبة دون الغیوب الاقرار بجملةما جھلوا تفسیرہ من الغیب المحجوب“۔
اور جان لوکہ راسخین فی العلم وہ ہیں جو اسرار غیبی کے مقابلے میں اعتراف عجز کرتے ہیں اور وہ ان اسرار کی تفسیر سے عاجز ہیں اسی عجز نے انہیں اس سلسلے میں کاو ش و کوشش سے بے نیاز کردیا ہے ۔ ( نہج البلاغہ خطبہ ۹۰)
یہ جملہ بعض ان روایات سے متفق معلوم نہیں ہوتا جو خود حضرت امیر المومنین (ع) سے ہی منقول ہیں اور جن میں آپ (ع) نے ” راسخون فی العلم “ کا عطف ” اللہ “ پر قرار دیا ہے اور انہیں قرآنی تاویل سے آگاہ بتا یا ہے اور پھر ،مندر بالا دلائل پر بھی یہ منطبق نہیں 1
لہٰذا ضروری ہے کہ خطبہ اشباح کے اس جملے کی ایسی توجیہ کی جائے جو ہمارے پاس موجود دیگر مدارک سے اختلاف نہ رکھتی ہو ۔
نہج البلاغہ کا یہ جملہ در اصل راسخون فی العلم کی عظمت پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اپنے علم کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے وسعت علم کا اندازکرتے ہیں اور اس کے سامنے اپنے عجز کا اظہار کرتے ہیں ۔ اس لئے یہ بات صحیح ہے کہ ہے کہ یہ جملہ قرآن میں ” راسخون فی العلم کے تاویل قرآن سے ناواقف ہونے کے کسی مفروضہ مفہوم کی تائید نہیں کرتا ۔ مترجم ۔

 


1تفسیر نور الثقلین ج و ص ۳۵ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
 
۴۔” راسخون فی العلم “ کون ہیں ?(6) آیت کی تفسیر کے سلسلے میں نتیجہ ٴ کلام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma