یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت زکری(ع) کا تعجب اور حیرانی کس بناء پر تھی جبکہ خدا تعالیٰ کی بے پایاں قدرت پر بھی ان کی نظر تھی ۔
قرآن کی دیگر آیات پر نظرکرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت زکریا (ع) معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ایک بانجھ عورت جو کئی سال سے ماہانہ عادت بھی چھوڑ چکی تھی اس کے ہاں بچہ پیدا ہونا کیونکر ممکن ہ ، اس میں کیا تغیر و تبدل ہو گا کیا پھر سے جوان یا ادھیڑ عمر کی عورتوں کی طرح انہیں ماہواری آنے لگے کی یاوہ کسی اور طرح سے بچے کی پیدائش کے قابل ہو جائے گی ۔
ععلاوہ از ایں قدرتِ خدا وندی پر ایمان شہود اور مشاہدے سے الگ چیز ہے ، حضرت زکریا (ع) در اصل چاہتے تھے کہ ایمان درجہٴ شہادت تک پہنچ جائے ۔ یہ بات حضرت ابراہیم (ع) کے پرندوں کے واقعے سے ملتی جلتی ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معاد اور قیامت پر ایمان تو تھا لیکن وہ اس طرح اطمینان حاص کرنا چاہتے تھے ۔ یہ فطری امر ہے کہ انسان جب طبعی قوانین کے خلاف کسی امر کا سامنا کرتا ہے تو وہ غور و فکر میں پڑجاتا ہے اور اسے خواہش ہوتی ہے کہ اس کےلئے کوئی حسیِ دلی حاصل کرے ۔
۴۱۔ قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِی آیَةً قَالَ آیَتُکَ اٴَلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَةَ اٴَیَّامٍ إِلاَّ رَمْزًا وَاذْکُرْ رَبَّکَ کَثِیرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَالْإِبْکارِ۔
ترجمہ
۴۱۔ ( حضرت زکری(ع) نے ) عرض کیا : پروردگار! میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما ۔ ( خدا نے کہا ): تیرے لئے نشانی یہ ہے کہ تو تین دن تک لوگوں نے اشارے سے گفتگو کرسکے گا ( اور تیری زبان بغیر کسی ظاہری سبب کے لوگوں سے بات نہیں کرپائے گی) اور (اس عظیم نعمت پر شکرانے کے طور پر) اپنے پروردگار کو بہت یاد کرو اور صبح شام اس کی تسبیح کرو ۔