ہم کہہ چکے ہیں کہ حضرت زکریا کی بیوی اور جناب مریم کی والدہ آپس میں بہنیں تھیں ، اتفاق کی بات ہے کہ دونوں ابتداء میں بانجھ تھیں ۔جناب مریم (ع) کی والدہ کو ایسی لائق بیٹی نصٰب ہوئی ، حضرت زکریا (ع) نے حضرت مریم (ع) کے خلوص اور حیران کن خصوصیات کو دیکھا تو آرزو کی ان کی بھی مریم جیسی پاکیزہ اور پرہیز گار اولاد ہو جس جا چہرہ عظمت الہٰی اور توحید کی علامت ہو ۔ حضرت زکری(ع) اور ان کی بیوی کی طویل زندگی اسی طرح گذر چکی تھی ظاہری طبعی قوانین اور فطرت کے نقطہٴ نظر سے یہ بعید نظر آتا تھا کہ اب ان کی کوئی اولاد ہو لیکن عشق الہٰی اور مریم (ع) کے محرابِ عبادت کے پاس بت موسم کے پھل دیکھنے کا اثر تھا کہ حضرت زکریا (ع) کے دل میں ابھی امید پیدا ہوئی اور انہوں نے بڑھاپے کے موسم میں خواہش کی کہ ان کے وجود کی شاخ پر بھی فرزند کی صورت میں میوہ پیدا ہو جائے لہٰذا جب وہ عبادت اور مناجات میں مشغول تھے انہوں نے خدا تعالیٰ سے فرزند کا تقاضا کیا ” قال ربِّ ھب لی من لّدنک ذرّیةً طیبةً انّک سمیع الدّعآء“ یعنی خدا وندا! مجھے پاکیزہ فرزند عطا فرما کہ تو بندوں کی دعائیں سننے والاہے ۔
” فَنَادَتْہُ الْمَلاَئِکَةُ وَہُوَ قَائِمٌ یُصَلِّی فِی الْمِحْرَاب“۔
زیادہ دیر نہ گذری تھی کہ زکریا (ع) کی دعا قبول ہوگئی ۔ وہ محراب عبادت میں مناجات کررہے تھےاور مشغو ل عبادت تھے کہ خد انے فرشتوں نے انھیں آواز دی اور بشارت دی کہ خدا تعالیٰ انھیں بہت جلد ایک بیٹا دے گا جس کا نام یحییٰ ہوگا اور جو ان صفات کا حامل ہوگا ۔
(”مصدّقاً بکلمةٍ مِنَ اللَّہ “))
یاد رہے کہ اس آیت میں اور بعض دیگر آیات میں جن کا ذکر آگے آئے گا ” کلمہ“ سےمراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور جیسا کہ تاریخ میں آیا ہے حضرت یحییٰ (ع) حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے چھ ماہ بڑے ہیں اور پہلے شخص ہیں جنہوں نے جناب مسیح (ع) علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کی اور چونکہ وہ لوگوں میں پاکیزگی اور زہد و تقویٰ کے اعتبار سے بہت زیادہ شہرت رکھتے تھے لہٰذا جب حضرت مسیح (ع) کی طرف ان کی رغبت ، حضرت عیسیٰ (ع) کی دعوت و نبوت کی طرف لوگوں کی توجہ کے لئے بہت موٴثر ثابت ہوئی ۔
۲۔ حلم و عمل کے لحاظ سے معاشرہ کی رہبری ان کے ذمے ہوگی (” وسیداً“) علاوہ ازیں وہ اپنے تئیں سرکش ہوا و ہوس اور دنیا پرستی سے محفوظ رکھیں گے ، (” وحصوراً “) ۔
” حَصُور“ مادہ” حصر“سے ہے ، اس کا معنی ہے وہ شخص جو کسی حوالے سے اپنے آپ کو محاصرے میں رکھے ۔ کبھی یہ لفظ عدم ازدواج اور شادی نہ کرنے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ بعض مفسرین نے مندرجہ بالا آیت میں اس لفظ سے یہی دوسرا مفہوم مراد لیا ہے نیز بعض روایات میں بھی اسی مفہوم کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔