۲۔ قیصر روم کے نام خط

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
مقوقس۱ کے نام خط ” یٰا ھل الکتاب لم یحآجّون فیّ ابراہیم ..............“

۲۔ قیصر روم کے نام خط
” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم “۔
من  محمد بن عبد اللہ الیٰ....... ھر قل عظیم الروم
سلام ٌ علیٰ من اتّبع الھدیٰ  امّا بعد ؛
فانّی ادعوک بد عایة الاسلام اسلم تسلم ، یوٴتک اللہ اجرک مرّتین فان تولّیت فانّما علیک اثم الاریسین۔۔۔۔۔۔” یآھل الکتاب تعالوا الیٰ کلمةٍ سوآءٍ بیننا و بینکم الاّ نعبد الاّ اللہ ولا نشرک بہ شیئاً وّلا یتّخذ بعضاً ارباباً من دون اللہ فان تولّوا فقو لوا اشھدوا بِانّا مسلمون“۔
” اس پراسلام ہے جو ہدایت کی پیروی کرے میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں ۔ اسلام لے آوٴ تاکہ امام میں رہو ۔ خدا تجھے دو گناہ اجر دے گا (ایک تیرے ایمان لانے کا اور دوسرا ان لوگوں کا جو تیری وجہ سے ایمان لائیں گے) اور اگر تونے روگردانی کی تو اریسٰیوں ۔ کا گناہ بھی تیری گردن پر ہو گا ۔ اسے اہل کتاب ہم تمہیں مشترک بنیاد کی طرف دعوت دیتے ہیں  کہ غیر خدا کی عبادت نہ کرو اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دو ۔ ہم میں سے بعض، دوسرے بعض کو خدا کے طور پر قبول نہ کریں اگر وہ دین حق سے سر تابی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو ہم تو مسلمان ہیں “۔
قیصر کے پاس نبی اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کا پیغام پہنچا نے کے لیے وجیہ کلبی مامور ہواسفیر پیغمبر عازم روم ہوا ۔
قیصر کے دار الحکومت قسطنطنیہ پہنچنے سے پہلے اسے معلوم ہو اکہ قیصر بیت المقدس کی زیارت کے ارادے سے قسطنطنیہ چھوڑ چکا ہے لہٰذا اس نے بصری کے گورنر حارث بن ابی شر سے رابطہ پیدا کیا اور اسے اپنا مقصد سفر بتایا ۔ ظاہر اً پیغمبر اکرم نے ابھی اجازت دے رکھی تھی کہ وجیہ وپ خط حاکم بصری کو دے دے تاکہ وہ اسے قیصر تک پہنچا دے ۔ سفیر پیغمبر نے گورنر سے رابطہ کیا تو اس نے عدی بن حاتم کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ وجیہ کے ساتھ بیت المقدس کی طرف روانہ ہوجائے اور خط پہنچا دے ۔ حمص میں سفیر کی قیصر سے ملاقات ہوئی لیکن ملاقات سے قبل شاہی کار کنانوں نے کہا: ” تمہیں قیصرکے سامنے سجدہ کرنا پڑے گا ورنہ وہ تمہاری پروہ نہ کرے گا “۔
وجیہ ایک سمجھدار انسان تھا ، کہنے لگا:۔
” میں ان غیر مناسب رسموں کو ختم کرنے کے لئے اتنا سفر کرکے آیا ہوں ۔ میں اس مراسلہ کو بھیجنے والے کی طرف سے آیاہوں تاکہ قیصر کو یہ پیغام دوں کہ بشر پرستی کو ختم ہونا چاہئیے اور خدائے واحد کے سوا کسی کی عبادت نہیں ہونی چاہئیے اس عقیدے کے باوصف کیسے ممکن ہے کہ میں غیر خدا کے لیے سجدہ کروں “۔
پیغمبر کے قاصد کی قومی منطق سے وہ بہت حیران ہوئے ۔ درباریوں میں سے ایک نے کہا : تمہیں چاہئیے کہ خط بادشاہ کی میز پر رکھ کر چلے آوٴ اس میز پر رکھے ہوئے خط کو قیصر کے علاوہ کوئی نہیں اٹھا سکتا ۔ “
وجیہ نے اس کا شکریہ ادا کیا ، خط میز پر رکھا اور خود واپس چلا گیا ۔ قیصر نے خط کھو لا ۔ خب جو بسم اللہ سے شروع ہوا تھا اسے متوجہ کیا اور کہنے لگا ۔
” حضرت سلیمان (علیه السلام) کے خط کے سوا آج تک میں نے ایسا خط نہیں دیکھا “
اس نے اپنے مترجم کو بلا یاتاکہ وہ خط بڑھے اور اس کا ترجمہ کرے ۔ باد شاہ ِ روم کو خیال ہوا کہ ہوسکتا ہے خط لکھنے والاہی نبی ہو جس وعدہ انجیل اور تورات میں کیا گیا ہے ۔ وہ اس جستجومیں لگ گیا کہ آپ کی زندگی کی خصوصیات معلوم کرے ، اس نے حکم دیا کہ شام کے پورے علاقے میں چھان بین کی جائے ، شاید محمد کے رشتہ داروں میں سے کوئی شخص مل جائے جو ان کے حالات سے واقف ہو ، اتفاق سے ابو سفیان اور قریش کا ایک گروہ تجارت کے لئے شام آیاہوا تھا ۔
شام اس وقت سلطنت روم کا مشرقی حصہ تھا ۔ قیصر کے آدمیوں نے ان سے رابطہ قائم کیا اور انہیں بیت المقدس لے گئے ، قیصر نے ان سے سوال کیا:۔
کیا تم میں سے کوئی محمد کا نزدیکی رشتہ دار ہے ؟
ابو سفیان نے کہا:۔
” ابو سفیان نے کہا میں اور محمد ایک ہی خاندان سے ہیں اور ہم چھوتھی پشت میں ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں ۔
پھر قیصر نے اس سے کچھ سوالات کئے ۔ دونوں میں یوں گفتگو ہوئی :۔
قیصر: اس کے بزرگوں میں سے کوئی حکمراں ہواہے ؟
ابو سفیان : نہیں
قیصر: کیا نبوت کے دعویٰ سے پہلے وہ جھوٹ بولنے سے اجتناب کرتا تھا؟
ابوسفیان : ہاں محمد راست گو اور سچا انسان ہے ۔
قیصر: کونسا طبقہ اس کا مخالف ہے اور کونسا موافق ؟
ابو سفیان : اشراف اس کے مخالف ہیں ، عام اور متوسط درجے کے لوگ اسے چاہتے ہیں ۔
قیصر : اس کے پیرو کار میں سے اس کے دین سے کو ئی پھیرا بھی ہے ؟
ابوسفیان : نہیں
قیصر : کیا اس کے پیرو کار روز بروز بڑھ رہے ہیں ؟
ابو سفیان : ہاں
اس کے بعد قیصر نے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں سے کہا :
” اگر یہ باتیں سچی ہیں تو وہ یقینا پیغمبر موعود ہیں ۔ مجھے معلوم تھا کہ ایسے پیغمبر کا ظہور ہو گا لیکن مجھے یہ پتہ نہ تھا کہ وہ قریش میں سے ہوگا ، میں تیار ہوں کہ اس کے لئے خضوع کرو اور احترام کے طور پر اس کے پاوٴں دھووٴں2
میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ اس کا دین اور حکومت سر زمین روم پر غالب آئے گی ۔ “
پھر قیصر نے وجیہ کو بلا یا اور اس سے احترام سے پیش آیا ۔ پیغمبر اکرم کے خط کا جواب لکھا اور آپ کے لئے وجیہ کے ذریعے ہدیہ بھیجا اور آپ کے نام اپنے خط میں آپ سے اپنی عقیدت اور تعلق کا اظہار کیا ۔ 3
۶۵۔ یَااٴَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِی إِبْرَاہِیمَ وَمَا اٴُنْزِلَتْ التَّوْرَاةُ وَالْإِنجِیلُ إِلاَّ مِنْ بَعْدِہِ اٴَفَلاَتَعْقِلُونَ ۔
۶۶۔ہَااٴَنْتُمْ ہَؤُلاَءِ حَاجَجْتُمْ فِیمَا لَکُمْ بِہِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِیمَا لَیْسَ لَکُمْ بِہِ عِلْمٌ وَاللهُ یَعْلَمُ وَاٴَنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ
۶۷۔ مَا کَانَ إِبْرَاہِیمُ یَہُودِیًّا وَلاَنَصْرَانِیًّا وَلَکِنْ کَانَ حَنِیفًا مُسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنْ الْمُشْرِکِینَ۔
۶۸۔ إِنَّ اٴَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ وَھَذَا النَّبِیُّ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاللهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِینَ۔
ترجمہ
۶۵۔اسے اہل کتاب !( حضرت ) ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو( اور تم میں سے ہر ایک انہیں اپنے دین کا پیرو کار سمجھتا ہے)حالانکہ تو ریت اور انجیل ان کے بعد نازل ہوئی ہیں ، کیا تم عقل و فکر نہیں رکھتے ۔
۶۶۔تم تو وہی ہو جو اس چیز کے بار ے میں فکر کرتے تھے جس کے بارے میں آگاہ ہوتے تھے اب ان چیزوں کے بارے میں گفتگو کیوں کرتے ہو جن سے آگاہ نہیں ہو، خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔
۶۷۔ابراہیم یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ وہ مخلص موحّد اور مسلمان شخص تھے اور وہ ہر گز مشر کین میں سے نہیں تھے ۔
۶۸۔ ابراہیم سے اولویت ( اور زیادہ نسبت ) رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں اور ان دور میں ان کے مکتب کے وفا دار تھے اور اس طرح )یہ وہ لوگ جو ( اس پر ) ایمان لائے ہیں اور خدا مومنین کا ولی اور سر پرست ہے ۔

 


۱.مقوقس“( بروزن مفوض۔ بہ ضم میم و بہ فتح ہر دو قاف) ۔ ” ھرقل“ بادشاہ روم کی طرف سے مصر کا والی ۔
2.یہ احترام کے اظہار کا ایک طریقہ تھا جو ان دنوں مروج تھا ۔
3.مکاتیب الرسول ، ج۱ ، ص ۱۰۹۔

 

مقوقس۱ کے نام خط ” یٰا ھل الکتاب لم یحآجّون فیّ ابراہیم ..............“
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma