یهودیوں کے وسوسه

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
مکتب و ہدف کا رشتہ کیوں حق و باطل کو ایک دوسرے سے ملادیتے ہیں

بعض مفسرین نے نقل کیا ہے کہ بعض یہودیوں کی کوشش تھی کہ پاک دل مسلمانوں میں سے مشہور افراد مثلاً معاذ اور عمار وغیرہ کو اپنے دین کی طرف دعوت دیں اور شیطانی وسوسوں کے ذریعے انہیں اسلام سے موڑ لیں ۔ اس پرمندرجہ بالاآیت نازل ہوئی جس کے ذریعے تمام مسلمانوں کو اس سلسلے میں خطرے سے باخبر کیا گیا ہے ۔
تفسیر
” و ذت طّآ ئفةٌ من اہل الکتاب لو یضلونکم “۔
جیسا کہ شان نزول میں اشارہ کیا جاچکا ہے کہ دشمنان اسلام خصوصاً یہودی مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ پیغمبر اسلام کے نزدیکی صحابہ کے بارے میں بھی وہ خواہشمند تھے کہ انہیں اسلام سے پھیر لیں ظاہر ہے کہ اگر وہ رسول اللہ کے قریبی صحابہ میں سے ایک بار چند افراد ہی کو بر گشتہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو اسلام پر ایک عظیم ضرب پڑتی اور دوسروں کو متزلزل کرنے کے لئے فضا ہموار ہوجاتی ۔
مندرجہ بالا آیت میں دشمنوں کی اس سازش سے باخبر کیا گیا ہے ۔ نیز انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اس بے جا کوشش سے دست کش ہو جائیں ۔ اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ مکتب پیغمبر میں ان مسلمانوں کی تربیت اس حساب اور آگاہی سے ہوئی ہے کہ ان کے لَوٹ جانے کا کوئی احتمال نہیں ۔ انہوں نے اسلام کو دل و جان سے اپنا لیا ہے انہوں نے اس عظیم انسانی مکتب سے گہرا قلبی لگاوٴ پیدا کرلیا ہے اور وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ لہٰذا دشمن انہیں گمراہ نہیں کرسکتے بلکہ وہ تو فقط اپنے تئیں گمراہ کرتے ہیں اور اس لئے کہ وہ شہادت پیدا کرتے ہیں ، اسلام اور پیغمبر کی طرف غلط نسبتیں دیتے ہیں یوں وہ خود بد نیتی کی روح اپنے وجود میں پروان چڑھاتے ہیں ، زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو شخص عیب جوئی اور اعتراض کرنے ہی میں مصروف رہتا ہے اسے نقاط ِ قوت دکھائی نہیں دیتے یا پھر تعصب اور ہٹ دھر می کی وجہ سے نورانی نقاط بھی اسے تاریک معلوم ہوتے ہیں اس امر میں اصرار کے نتیجہ میں روز بروز وہ حق سے دور ہی ہوتا چلا جاتا ہے ، اس لیے قرآن کہتا ہے :۔
(”وَمَا یُضِلُّونَ إِلاَّ اٴَنْفُسَهم وَمَا یَشْعُرُونَ “۔)
” وما یشعرون“۔ یعنی وہ شعور اور توجہ نہیں رکھتے ، یہ جملہ اس نفسانی نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ کبھی انسان اپنے آپ سے آشنا نہیں ہوتا اور وہ اپنی باتوں کے زیر اثر بھی ہوجاتا ہے ۔ جب کہ وہ کوشش کرتا ہے کہ جھوٹ اور تہمت کے ذریعے دوسروں کو گمراہ کرے تو وہ اپنے آپ کو بھی اس کے اثرات سے بچا سکتا اور یہ غلط باتیں آہستہ آہستہ خود اس کے قلب و جان پر اثرکرنے لگتی ہیں ۔ زیادہ وقت نہیں گزرتا کہ غلط بات اس کا راسخ عقیدہ بن جاتی ہے ۔ ایسی باتوں کو اختیار کرکے وہ خود گمراہ ہوجاتا ہے ۔
۷۰۔ یَااٴَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللهِ وَاٴَنْتُمْ تَشْہَدُونَ ۔
۷۱۔ یَااٴَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۔
ترجمہ
۷۰۔ اے اہل کتاب! کیوں آیات ِ خدا سے کفر کرتے ہو جب کہ ( ان کی صحت و صداقت کی ) گواہی( بھی ) دیتے ہو ۔
۷۱۔ اے اہل کتاب حق کو باطل سے کیوں ملاتے ہو(اور انہیں مشتہ کرتے ہو تاکہ لوگ سمجھ نہ سکیں اور گمراہ ہوجائیں) اور حقیقت چھپاتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے ۔

 

مکتب و ہدف کا رشتہ کیوں حق و باطل کو ایک دوسرے سے ملادیتے ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma