مندرجہ بالاآیات دراصل قرآن کی پر اعجازآیات ہیں جو یہودیوں اور دشمنان اسلام کے اسرار سے پردہ اٹھاتی ہیں اور ان کی صدر اوّل میں مسلمانوں متزلزل کرنے سازشوں کو فاش کرتی ہیں ۔ ان کی وجہ سے مسلمان بیدار ہو گئے اور دشمن کے تباہ کن وسوسوں سے بچ گئے ، اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ موجود ہ دور میں بھی اسلام کے خلاف ایسے منصوبہ بنے رہتے ہیں ، دشمن کے ذرائع ابلاغ جو پوری دنیا میں سب سے قوی ہیں اس سلسلے میں استعمال ہورہے ہیں ۔ دشمنوں کی کو شش ہے کہ اصل اسلام خصوصاً ان کی نوجوان نسل کے افکار کو اسلامی عقائد سے متزلزل کردیں وہ اس کے لئے عالم ، دانشور ، مورّخ، سائنسداں ، صحافی یہاں تک کہ فلمی ادار کا بھیس بھی استعما ل کرتے ہیں ۔
وہ یہ حقیقت نہیں چھپاتے کہ ان کے پراپیگنڈا کا مقصد مسلمانوں کو یہودی یا عیسائی بنانا نہیں بلکہ ان کا ہدف نوجوانوں کو اسلامی عقائد سے بر گشتہ کرنا ہے اور انہیں اپنے دین اور ثقافت کے مفاخر سے لاتعلق کرنا ہے ۔ قرآن آج مسلمانوں کو ان سازشوں سے ہوشیار رہنے کی دعوت دیتا ہے ۔
۷۵۔وَمِنْ اٴَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ إِنْ تَاٴْمَنْہُ بِقِنطَارٍ یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ وَمِنْهم مَنْ إِنْ تَاٴْمَنْہُ بِدِینَارٍ لاَیُؤَدِّہِ إِلَیْکَ إِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَائِمًا ذَلِکَ بِاٴَنَّهم قَالُوا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاٴُمِّیِّینَ سَبِیلٌ وَیَقُولُونَ عَلَی اللهِ الْکَذِبَ وَهم یَعْلَمُونَ ۔
۷۶۔ بَلَی مَنْ اٴَوْفَی بِعَہْدِہِ وَاتَّقَی فَإِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ ۔
ترجمہ
۷۵۔ اور اہل کتاب میں سے کچھ ایسے بھی ہیں کہ اگر تم انہیں بہت سی دولت بطور امانت دو تو وہ تمہیں لوٹا دیں گے اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ اگر انہیں ایک دینار بھی سپرد کرو تو وہ تمہیں ہر گز واپس نہ کریں گے مگر اس وقت تک جب تک تم ان کے سر پر کھڑے رہو ( اور ان پر مسلط رہو)یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم امیین ( یہودیوں کے علاوہ کسی ) کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں اور خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں حالانکہ جانتے ہیں ۔
۷۶۔ جی ہاں جو شخص اپنے عہد و پیمان پورے کرے اور پرہیز گاری اختیار کرے( خدا اسے دوست رکھتا ہے کیونکہ ) خدا پر ہیز گاروں کو پسند کرتا ہے ۔
یہ آیت دو یہودیوںکے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ ان میں سے ایک امین اور صحیح آدمی تھا اور دوسرا خائن اور پست فطرت ۔ پہلا شخص عبد اللہ بن سلام تھا ۔ اس کے پاس ایک دولت مند ۱۲۰۰ وقیہ ۱
سونا بطور امانت رکھا ۔ عبد اللہ نے وہ سب معین موقع پر واپس کردیا ۔
دوسرا شخص ضحاص بن عاز ورا تھا ایک قریشی نے اس کے پاس ایک دینار بطور امانت رکھا ۔ضخاص نے اس میں خیانت کی ۔ اس کی خیانت کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے زیر ِ نظر آیت میں اس کی مذمت کی ہے ۔
بعض کہتے ہیں پہلا جملہ نصاریٰ کی ایک جماعت کے بارے میں ہے اور خیانت کر نے والے یہودی تھے ۔
اگر آیت ان دونوں واقعات کے متعلق ہو تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر چہ زیادہ قرآنی آیات خاص مواقع پر نازل ہوئی ہیں لیکن وہ عمومی پہلو بھی رکھتیں ہیں اور اصطلاح کے مطابق موقع و محل سے مختص نہیں ہیں ۔