ادبی اصطلاح کے مطابق ” شہد“ فعل ہے ، اس کا فاعل ” اللہ “ ہے اور قائماًبالقسط اس سے حال ہے ۔ یعنی خدا تعالیٰ اپنی یکتائی کی گوہای اس عالم میں دیتا ہے کہ عالم ہستی میں عدالت قائم کئے ہوئے ہے اور واقعاً ٰ یہ جملہ اس کی شہادت کی دلیل ہے کیونکہ عدالت کی حقیقت یہ ہے کہ درمیانہ اور مستقیم راستہ ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے اور ایک سے زیادہ نہیں ہوسکتا ، جیسا کہ سورہ انعام کیاآیت ۱۵۳ میں ہے :
”اِنّ اللَّہَ ھٰذا صراطی مستقیماً فاتّبعوہ ولاتتبعوا التبل فتفرّق بکم عن سبیلہ “۔
اور یہ میرا سیدھا راستہ ہے ، پس اسی کی اتباع کرو اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ لگو وہ تمہیں اس کے راستے سے بھٹکادیں گے ۔
اس آیت میں خدا کے ایک راستے کو ذکر ہے اور منحرف اور بھٹکے ہوئے متعدد راستے بتائے گئے ہیں کیونکہ ، صراط مستقیم ، مفرد ہے اور کج راستوں کا ذکر کے صیغے سے کیا گیا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت ہمیشہ ایک ہی نظام سے ہوتی ہے اور ایک ہی نظام کا ہونا مبداء واحد کا پتہ دیتاہے ۔ اس لیے عالم آفرینش میں حقیقی عدالت اپنے مفہوم میں پیدا کرنے والے کی یکتا ئی پر دلیل ہے ( غور کیجئے گا ) ۔