وحدت کی طرف دعوت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
مسیح (علیه السلام) کے بارے میں قرآن کے پیغمبر اکرم کے خطوط دنیا کے بادشاہوں کے نام

قرآن نے سب سے پہلے عیسائیوں کو گزشتہ آیات کے ضمن میں منطقی استدلال پیش کیا اور ان کی مخالفت کے بعد دعوتِ مباہلہ دی ۔۔ جب اس دعوت سے ان پر کافی نفسانی اثر ڈالا تو چونکہ وہ مباہلے کے لئے تیار نہیں ہوئے اور شرائط ذمہ قبول کرلیں تو ان کی اس رو حانی آمادگی سے استفادہ کرتے ہوئے پھر استدلال شروع کیا لیکن یہ استدلال پہلے سے بہت مختلف ہے ۔ گزشتہ آیات میں اسلام کی دعوت اس کی تمام تر خصوصیات کے ساتھ تھی لیکن اس آیت میں اسلام اور اہل کتاب کے مشترک نقاط کی طرف دعوت دی گئی ہے ۔ حقیقت میں اس طرز استدلال سے قرآن ہمیں لکھتا ہے کہ اگر لوگ اس بات پر تیار نہیں کہ تمہارے تمام مقدس اہداف و مقاصد میں تمہارا ساتھ دیں تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھ جاوٴ اور کو شش کرو کہ کم از کم جس قدر تمہارے ساتھ وہ اشتراک ِ ہدف رکھتے ہیں اتنا ہی ان کی ہم کاری حاصل کرلو اور اسے مقدس اہداف و مقاصد کی پیش رفت کے لئے بنیاد قرار دو ۔
مندرجہ بالا اہل کتاب کے لئے ( وحدت و اتحاد) کی پکار ہے اور انہیں کہتی ہے کہ تم دعوٰ کرتے ہو بلکہ اعتقاد رکھتے ہوکہ مسئلہ ” تثلیث“ (تین خداوٴ ں کا عقیدہ ) ” توحید“ کے عقیدے کے منافی نہیں اس لئے تثلیث میں وحدت کے قائل ہو اور اس طرح یہودی شرک آلود باتوں کے باوجود اور عزیز کو خدا کا بیٹا جاننے کے باوجود توحید کے مدعی ہیں یوں تم سب کے سب اصل میں اپنی ” تو حید “ کو مشترک سمجھتے ہیں اس لئے آوٴ ہم ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اس مشترک بنیاد کو مستحکم کریں اور ایسی غیر مناسب تفسیروں سے اجتناب کریں جن کا نتیجہ شرک ہو اور توحید خالص سے دوری ہو ۔
” و لا یتّخذ بعضا بعضاً ارباباً مّن دُون اللّہ “۔
آیت کی ابتداء میں دو مرتبہ مسئلہ توحید کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ ایک ” الا تعبد الاّ اللہ “۔ یعنی آوٴ خد اکے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ، اور دوسرا ” لانشرک بہ شیئاً“۔ ( یعنی ۔ کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں ، اب زیر نظر جملے میں تیسری دفعہ اس اصل کا تذکرہ ہے لیکن زیادہ صراحت اور ذمہ داری کے حقیقی نقطے پر انگلی رکھ کر ، کیونکہ جملے کا مفہوم یہ ہے کہ ہم میں سے بعض کو نہیں چاہئیے کہ بعض دوسروں اپنا معبود اور پروردگار قرار دے لیں ۔
ممکن ہے یہ تعبیر ان دو مطالب میں سے ایک کی طرف اشارہ ہو:
پہلا یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیه السلام)جو انسان اور ہمارے ممنوع ہیں انہیں الوہیت کے عنوان سے نہیں پہچانا جان چاہئیے ۔
دوسرا یہ کہ منحرف اور کج روعلماء جو اپنے مقام سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں اور خدا کے حلال و حرام کو اپنی مرضٰ سے بدلتے ہیں انہیں سند نہیں سمجھنا چاہئیے اور نہ ان کی پیروی کرنا چاہئیے ۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء اہل کتاب میں ایک ایسا گروہ بھی تھا جو احکام خدا کی اپنے منافع اور تعصبات کے مطابق تحریف کرتا تھا ۔منطق اسلام کی نظر سے جو شخص ایسے افراد کی جان بوجھ کر بلا مشروط پیروی کرے اس نے ایک قسم کی عبودیت اور ان کی پرستش کی ہے ۔
اس کے لئے روشن دلیل کوجود ہے کیونکہ قانون بنایا اورحلال و حرام کی تشریع خدا سے مربوط ہے جو شخص کسی اور کو اس سلسلہ میں صاحب اختیار سمجھے اس نے اسے خدا کا شریک قرار دیا ۔
مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں نقل کیا ہے کہ :
” عدی بن عادل پہلے عیسائی تھا ۔ پھر اسلام لے آیا ۔ اس آیت کے نزول کے بعد اس نے لفظ ” ارباب “ سے یہ سمجھا کہ قر آن کہتا ہے کہ اہل کتاب اپنے بعض علماء کی پرستش کرتے ہیں ۔ لہٰذا اس نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں عرض کیا : گذشتہ زمانے میں ہم کبھی اپنے علماء کی عبادت نہیں کرتے تھے ۔ آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے تھے کہ وہ اپنی مرضی سے احکام خدا مین تغیر و تبدل کرتے ہیں اور پھر بھی تم ان کی پیروی کرتے تھے ۔ عدی نے کہا: جی ہاں ۔
پیغمبر اکرم (علیه السلام) نے فرمایا: یہی پرستش و عبادت ہے ۔ ۱
۱” مجمع البیان “ اوپر کی آیت کے بار ے میں ۔ تفسیر ” نور الثقلین “ جلد اوّل صفحہ ۲۵۳۔
درحقیقت اسلام غلامی اورفکری استعمار کو ایک قسم کی عبودیت و پرستش سمجھتا ہے اور اسلم نے جس شدت سے شرک اور بت پرستی کا مقابلہ کیا ہے ا سی شدت سے فکری استعمار سے بھی جنگ کی ہے کیونکہ یہ بھی بت پرستی کی مانند ہے ۔
توجہ رہے کہ ” ارباب “ جمع کا صیغہ ہے اس بناء پر اس آیت سے صرف حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کی پرستش کی نہی نہیں ہوتی ۔ لیکن ممکن ہے کہ یہاں حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کی عبودیت سے بھی نہی ہو اور منحرف و کجر و علماء کی عبودیت سے بھی ۔
”فاِن تولّوا فقولوا اشھدوا بانّا مسلمون“۔
اگر وہ لوگ توحٰد کے مشترک نقطے کی طرف منطقی دعوت کے بعد منہ پھیر لیں تو انہیں کہنا چاہئیے کہ گواہ رہنا کہ ہم تو حق کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور تم نہیں کرتے ۔ دوسرے لفظوں میں جان لو کہ کون لوگ حق کے متلاشی ہیں اور کون متعصب اور ہٹ دھرم۔
اس وقت انہیں ” اشھدوا بانّا مسلمون“۔ ( یعنی  یعنی گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں ) کے جملے سے خطرے کا الارم دوکہ حق سے تمہاری روگردانی اور دوری ہم پر کچھی اثر نہیں رکھتی اور ہم اس طرح اپنے ( اسلام کے )راستے پر چلتے رہیں گے، صرف خدا کی عبادت رکیں گے، صرف اس کے قوانین قبول کریں گے( اور پختگی سے پہچانیں گے ) اور ہمارے درمیان کسی بشر کی پرستش کا کسی شکل و صورت میں وجود نہیں ہوگا ۔

مسیح (علیه السلام) کے بارے میں قرآن کے پیغمبر اکرم کے خطوط دنیا کے بادشاہوں کے نام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma