” یٰا ھل الکتاب لم یحآجّون فیّ ابراہیم ..............“

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
۲۔ قیصر روم کے نام خطمکتب و ہدف کا رشتہ

تفسیر :

” یٰا ھل الکتاب لم یحآجّون فیّ ابراہیم ..............“
تاریخ کے مطالعہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہودی ظہور اسلام کے وقت ہی سے اس دین سے خاص دشمنی اور عداوت رکھتے تھے ۔ اسلام کے نفوذ، پھیلاوٴ اور اس جدید دین کے ذریعے دین مسیح کے منسوخ ہوجانے سے عیسائیوں کا ایک گروہ بھی اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ۔ یہ لوگ کبھی کبھی بحث مباحثے ، حجت بازی اور جھگڑے کے لئے اپنے وفادار افراد کو نبی اکرم کے پاس بھیجتے تھے اور وہ اس طرح اپنے دین کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔
ان امور میں سے ایک یہ تھا کہ وہ سب کے سب کوشش کرتے کہ خدا کے عظیم پیغمبر حضرت ابراہیم (علیه السلام) کو اپنے میں سے ثابت کریں کیونکہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) تمام مذاہب کے پیروکاروں میں معظم ومحترم سمجھے جاتے تھے ۔ یہودی مدعی تھے کہ وہ ان میں سے ہیں اور ان کے دین کے پیرو ہیں ۔ یہی دعویٰ عیسائی بھی کرتے تھے ۔
مندرجہ با لا آیت میں قرآن انہیں جواب دیتا ہے کہ اصولی طو رپر خدا کے مبارزو مجاہد پیغمبر حضرت ابراہیم کے بارے میں تمہارا جھگڑا او ر گفتگوہی بیکار ہے کیونکہ وہ تو سالھا حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ سے پہلے ہو گزرے ہیں اور تورات و انجیل ان کے کئی سال بعد نازل ہوئیں ۔
(”وَمَا اٴُنْزِلَتْ التَّوْرَاةُ وَالْإِنجِیلُ إِلاَّ مِنْ بَعْدِہِ“)
کیا یہ چیز معقول ہے کہ گزشتہ پیغمبراپنے سے بعد والے دین کا پیرو کار ہو اٴَفَلاَتَعْقِلُونَ کیا تم تفکر و تعقل نہیں کرتے ۔
”ہَآ اٴَنْتُمْ ہَؤُلاَءِ حَاجَجْتُمْ فِیمَا لَکُمْ بِہِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِیمَا لَیْسَ لَکُمْ بِہ عِلْمٌ “
یہاں خدا تعالیٰ انہیں سر زنش کرتا ہے کہ اپنے مذہب سے مربوط مسائل جن کا تمہیں علم تھا ان کے بارے میں تم نے گفتگو اور بحث کی ہے ( اور تم نے دیکھ لیا جن مباحث کے بارے میں تمہارے خیال میں علم تھا ان میں بھی تم کیسے کیسے اشتباہات میں مبتلا اور حقیقت سے دور تھے واقع میں تمہارا علم جہل مرکب تھا ۔
اس کے باوجودجس چیز کی تمہیں خبر نہیں اس کے بارے میں بحث مباحثہ کرتے ہو اور نتیجے کے طور پر تم ایسا دعویٰ کرتے ہو جو کسی تاریخ کے مطابق درست نہیں ۔
اس کے بعدآیت کے آخر میں گزشتہ مطالب کی تاکید کے لئے اور بعد والی آیت کی بحث کی طرف متوجہ کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے : خدا جانتا ہے اور تم جانتے ” وَاللهُ یَعْلَمُ وَاٴَنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ “
” مَا کَانَ إِبْرَاہِیمُ یَہُودِیًّا وَلاَنَصْرَانِیًّا .......“
یہاں صراحت سے ان کے دعووٴں کا جواب دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے : ابراہیم یہودی تھے نہ عیسائی بلکہ پاک اور خالص موحّد تھے اور خدا کے حضور سر تسلیم خم کئے ہوئے تھے اور کبھی تمہاری طرح شریک ِ خدا کے قائل نہیں ہوئے تھے ،
توجہ رہے کہ لفظ ” حنیف“ مادہ ” حنف“ ( بروزن ” انف“) سے ہے اور ایسے شخص یا چیز کے معنی میں بولاجاتا ہے جو کسی طرف مائل ہو اور قرآن کی زبان میں ایسے شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو اپنے زمانے کے باطل دین سے منہ موڑ کر دین حق کی طرف مائل ہو ۔
مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی ” حنیف“ کے لقب سے توصیف کی ہے کیونکہ انہوں نے تقلیداورتعصب کے پردے چاک کردئے تھے آپ (علیه السلام) ایسے ماحول اور زمانے میں ہر گز بتوں کے سامنے نہیں جھکے جو بت پرستی میں غرق تھا لیکن زمانہ جاہلیت کے بت پرست عرب بھی اپنے کو ابراہیم کے دین ” حنیف“ کے لقب سے توصیف کی ہے کیونکہ انہوں تقلید اور تعصب کے پردے چاک کردئے تھے آپ ایسے ماحول اور زمانے میں ہر گز بتوں کے سامنے نہیں جھکے ج وبت پرستی میں غرق تھا لیکن زمانہ جاہلیت کے بت پرست عرب بھی اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے دین ” حنیف “ پر سمجھتے تھے اور یہ بات اتنی مشہور تھی کہ اہل کتاب انہیں ” حنفاء“کہتے تھے یوں لفظ ” حنیف “ کا بالکل متضاد معنی پیدا ہوگیا تھااور ان کی نظر میں یہ لفظ بت پرستی کا مترادف اور ہم معنی ہوچکا تھا لہٰذا خداوند عالم نے حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی ” حنیف“ کے عنوان سے توصیف کرنے کے بعد ” مسلماً “ اور ” وماکان من المشرکین “۔ کہہ کر ہر قسم کے دوسرے احتمال کی نفی کردی ۔
حضرت ابراہیم (علیه السلام) کس طرح مسلمان تھے
یہاں سوال پیداہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) کو دین ِموسیٰ (علیه السلام) و عیسی (علیه السلام) کا پیرو کار نہیں کہا جاسکتا تو بطریق اولیٰ انہیں مسلمان بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ تو ان ادیان سے پہلے تھے ، پھر قرآن ان کا تعارف ” مسلم “ کے طور پر کیوں کروارہا ہے ۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں مسلم صرف پیغمبر اسلام کے پیرو کاروں کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اسلام کا ایک وسیع معنی ہے اور خدا کے حضور تسلیم مطلق، توحید کامل، نیز پر قسم کے شرک اور دوگانہ پرستی سے پاک کے معنی میں ہے اور اسی کے حضرت ابراہیم (علیه السلام)علمبردار تھے -

۲۔ قیصر روم کے نام خطمکتب و ہدف کا رشتہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma