(6) آیت کی تفسیر کے سلسلے میں نتیجہ ٴ کلام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
(5) کیا ” راسخون فی العلم “ ایک مستقل جملے کی ابتداء ہےلغزشوں سے رهایی

زیر بحث آیت کی تفسیر کے ضمن میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی آیات کی دو قسم کی ہیں :
۱۔ ایک وہ کہ جن کا مفہوم اس طرح مفہوم واضح اور روشن ہے کہ ان سے کسی قسم کے انکار ، ان کی توجیہ اور ان سے غلط فائدہ اٹھانے کی بالکل گنجائش نہیں ہے ۔ انہیں محکمات کہتے ہیں ۔
دوسری قسم کی آیا ت وہ ہیں جن کے مطالب کی سطح بلند ہے یا ان میں ایسے عوالم کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے کہ جو ہماری دسترس کے باہر ہیں مثلاً عالم غیب ، جہان ِحشر و نشر اور صفاتِ خدا وغیرہ ۔ ان آیات کا حقیقی معنی ، اسرار اور ان کی کنہ حقیقت کا ادراک مخصوص علمی سر مائے کا محتاج ہے ، انہیں متشابہات کہتے ہیں
منحرف اور کج رو افراد عموماً کوشش کرتے ہیں کہ آیات متشابہات سے غلط مقصد حاصل کریں ان کی خلاف حق تفسیر کریں تاکہ لوگوں مین فتنہ انگیزی کریں اور انہیں راہ حق سے گمراہ کریں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ اور راسخین فی العلم ان آیات کے اسرار کو جانتے ہیں اور لوگوں کے سامنے ان کی تشریح کرتے ہیں ۔ وہ اپنے وسیع علم کی روشنی میں آیات متشابہات کا آیات محکمات کی طرح ادراک کرتے ہیں اور اس بناء پر سب کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمام آیات ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں کیونکہ سب آیات چاہے محکم ہوں یا متشابہ ان کے علم و دانش کے سامنے واضخ اور روشن ہیں ۔
” یقولون اٰمنّا بہ کلّ مّن عند نا ربّنا“۔
علم میں راسخ ہونا سبب بنتا ہے کہ انسان اسرار ِ قرآن سے زیادہ سے زیادہ آگاہ ہوتا ہے البتہ جو علم و دانش کے لحاظ سے پہلے درجے پرفائز ہیں ، یعنی پیغمبر اکرم اور آئمہ ہدیٰ علیہم السلام ، تو وہ تمام اسرار سے آگاہ ہیں جب کہ باقی ہوگ اپنے علم و فضل کی مقدار کے برابر میں سے کچھ چیزیں جانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ علماء بھی خدا کے بھیجے ہوئے معلمین سے اسرارِ قرآن حاصل کرنے کے دے پے رہتے ہیں ۔
” وما یذکر الاّ اولوا الباب “۔
یہ جملہ اس طرف اشارہ ہے کہ ان حقائق کو صرف صاحبان ِ عقل و خرد اور اہل فکر و نظر ہی کانتے ہیں ۔ یہی لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں محکم و متشابہ آیات کیوں موجود ہیں اور یہی لوگ سمجھتے ہیں کہ آیات متشابہ کو محکم آیات کے سامنے رکھ کر معانی معلوم کئے جاتے ہیں ۔ اسی لئے امام علی بن موسیٰ علیہما السلام سے منقول ہے ، آپ (ع) نے فرمایا :
” من ردّ متشابہ القرآن الیٰ محکمة ھدیً الیٰ صراطٍ مستقیم “۔
جو شخص آیات متشابہ کو آیات محکم کی طرف پلٹا تا ہے اس نے سیدھے راستے کی طرف ہدایت حاصل کی ہے ۔
(تفسیر صالحی ، آیہ محل کے ذیل میں )
۸۔رَبَّنَا لاَتُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَةً إِنَّکَ اٴَنْتَ الْوَہَّابُ ۔
۹۔ رَبَّنَا إِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لاَرَیْبَ فِیہِ إِنَّ اللهَ لاَیُخْلِفُ الْمِیعَادَ۔
ترجمہ
۸۔ ( راسخین فی العلم کہتے ہیں )پالنے والے ہمارے دلوں کو سیدھے رہنے کی ہدایت کے بعد منحرف نہ کردے اور اپنی طرف سے ہم پر رحمت فرما کیونکہ توہی بخشنے والا ہے ۔
۹۔ اے ہمارے پروردگار ! تولوگوں کو اس دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک و تردّد نہیں ہے کیونکہ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، ہم تجھ پر ، تیری رحمت بے پایاں پر اور حشر و نشر اور قیامت کے وعدے پر ایمان رکھتے ہیں ) ۔

 

(5) کیا ” راسخون فی العلم “ ایک مستقل جملے کی ابتداء ہےلغزشوں سے رهایی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma