۱۔ امور مادی کو کس نے زینت دی ہے ۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
یہ انسان کا اصلی مقصد اور ہدف نہیں ہیں ۔ ۲۔”الْقَنَاطِیرِ الْمُقَنْطَرَةِ“اور ” وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ “سے کیا مراد ہے ۔

”زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ “۱
۱” شہوات“ ۔ شہوت کی جمع ہے جس کامعنی ہے کسی چیز سے شدید لگاوٴ اور تعلق رکھنا ” لیکن مندرجہ بالا آیت میں ” شہوات“ مشخصات“ کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور ” مشہیات “ ان چیزوں کو کہتے ہیں جن میں تعلق اور لگاوٴ ہو ۔
یہ جملہ فعل مجہول کی شکل میں آیا ہے اس میں کہا گی اہے : بیوی بچوں اور مال و دولت سے لگاوٴ اور ان سے محبت کو لوگوں کی نگاہ میں پسندیدہ بنایا گیا ہے ۔
یہاں سوال پید اہوتا ہے کہ یہ پسندیدہ بنانے والا اور انہیں لوگوں کی نظروں میں زینت دینے والا کون ہے ۔
بعض مفسرین کا نظر یہ ہے کہ یہ شیطانی ہوا و ہوس ہے جو انہیں لوگوں کی نگاہوں میں پسندیدہ بناتی ہے وہ سورہ نمل کی آیت ۲۴ سے استدلال کرتے ہیں جس میں فرما یا گیا ہے :
”زیّن لھم الشیطان اعمالھم“۔
اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نگاہ میں زینت دی ہے ۔
ایسی اور بھی آیات موجود ہیں ۔
لیکن یہ استدلال صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ محل بحث آیت میں اعمال کے بارے میں گفتگو نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں مال ، عورتوں اور اولاد کے بارے میں گفتگو ہے ۔
آیت کی صحیح تفسیر یہی معلوم ہوتی ہے کہ زینت دینے والا خدا ہی ہے اور یہ قوت اس نے انسان کی فطرت و طینت میں ودیعت کی ہے ۔ کیونکہ خدا ہی انسان میں اولاد اور مال و دولت کی محبت پیدا کرتا ہے تاکہ اسے آزمائے ، اسے کمال و ارتقاء عطا کرے اورتربیت کے راستے میں آگے لے جائے ۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے ۔
” انّا جعلنا ما علی الارض زینةً لّھا لنبوھم ایّھم احسن عملا ۔ “:
ہم نے زمین کی تمام چیزوں کو ان کے لئے زینت بنایا ہے تاکہ ان کی اخلاقی تربیت ہو سکے یعنی اس محبت و دلبستگی سے صرف سعادت ، اصلاح اور تعمیر کے لئے فائدہ اٹھائیں نہ یہ کہ فتنہ و فساد اور تباہی و بر بادی کے لئے انہیں کا میں لائیں ۔ ( کہف ۔ ۷)
یہ امر قابل ذکر ہے کہ زیر نظر آیت میں پہلے ازدواج اور اولاد کا ذکر ہے ۔ آج کے ماہرین ِ نفسیات بھی کہتے یں کہ جنسی پہلو انسان کے قوی ترین غرائز او راندرونی تقاضوں میں سے ایک ہے ۔ انسان کی تاریخ اور دورِ حاضر بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ بہت سے معاشرتی حوادث کا سر چشمہ اسی انسانی خواہش سے اٹھنے والے طوفان تھے ۔
اِس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ زیر بحث آیت اور ایسی دوسری آیات بیوی بچوں اور مال و دولت سے معتدل محبت اور لگاوٴ کی مذمت نہیں کرتیں کیونکہ معنوی اور روحانی مقاصد و اہداف کی پیش رفت مادی مسائل کے بغیر ممکن نہیں ۔ علاوہ ازیں قانون شریعت کبھی قانون فطرت سے متضاد نہیں ہوسکتا اور قانون ِ فطرت قابل ِ مذمت نہیں ہوتا ہاں البتہ ایسا عشق و محبت جو افراط کی حد کو پہنچ جائے ۔ بہ الفاظ دیگر پرستش و عبادت بن جائے وہ قابلِ مذمت ہے ۔

یہ انسان کا اصلی مقصد اور ہدف نہیں ہیں ۔ ۲۔”الْقَنَاطِیرِ الْمُقَنْطَرَةِ“اور ” وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ “سے کیا مراد ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma