چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
سیح (ع) کی ولادت کا واقعہمیرے خدا: کیسے ہوسکتا ہے کہ مجھ سے بچہ پیدا ہو جب کہ

چند اہم نکات

۱۔ عیسیٰ (ع) کو کلمہ کیوں کہا گیا ؟ : اس آیت میں اور دو مزید آیات میں حضرت مسیح (ع) کو ” کلمہ“ کے عنوان سے یاد کیاگیا ہے ۔ یہ تعبیر عہد جدید کی کتب میں بھی دکھائی دیتی ہے ۔
اس بارے میں مفسرین میںاختلاف ہے کہ حضرت عیسیٰ (ع) کو ” کلمہ “ کیوں کہا گیا ہے لیکن زیادہ تر یہی نظر آتا ہے کہ اس کا سبب ان کی غیر معمولی پیدائش ہے جو اس فرمان الہٰی کی مصداق ہے :۔
”انّما ٓ امرہٓ اذا رادا شیئاً ان یقول لہ کن فیکون “
اس کا امر تو بس یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا رادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہوجا بس وہ ہوجاتی ہے ۔ ( یس ٓ۔ ۸۲) یا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ولادت سے پہلے خدا تعالیٰ نے ان کی والدہ کو ایک کلام کے ذریعے بشارت دی تھی ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس تعبیر کی وجہ یہ ہوکہ لفظ ” کلمہ “ قرآن کی اصطلاح میں مخلوق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، مثلاً:
” قل لوکان البحر مداداً لکمات ربّی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربّی ولو جئنا بمثلہ مددا ۔“
کہہ دیجئے میرے پروردگار کے کلمات لکھنے کے لئے اگر دریا سیاہی بن جائیں تو وہ ختم ہو جائیں گے لیکن میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں اگر چہ انہی جتنے اور دریابھی ان میں شامل ہوجائیں ۔ ( کہف ، ۱۰۹) ۔
اس آیت میں کلمات خدا سے مراد مخلوقاتِ خدا ہی ہے اور چونکہ حضرت” مسیح “ خدا کی عظیم مخلوقات میں سے ایک تھے اس لیے ان پر ” کلمہ“ کا اطلاق ہوا ہے ۔ ضمناً اس میں حضرت عیسیٰ کی الوہیت کے دعویداروں کا جواب بھی آگیا ہے ۔
۲۔ حضرت عیسیٰ کو مسیح کیوں کہتے ہیں ؟: ممکن ہے یہ اس لئے ہو کہ ” مسیح “ ک امعنی ہے ” مسح کرنے والا ”مسح شدہ “ اور وہ ناقابل علاج بیماروں کے بدن پر ہاتھ پھیر کر حکمِ خدا سے اسے شفا یاب کردیتے تھے ۔ اس افتخار اور عظمت کی ان کے لئے پہلے سے پیش گوئی کی گئی تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے ولادت سے پہلے ہی ان کانام مسیح رکھ دیا ۔
یا یہ اس بناء پر ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ناپاکی او رگناہ سے مسح یعنی پاک رکھا ۔
۳۔ عیسیٰ مریم کے بیٹے ہیں : قرآن اس آیت میں صراحت سے حضرت عیسیٰ (ع) کو جناب مریم (ع) کے بیٹے کی حیثیت سے متعارف کروایا ہے تاکہ یہ حضرت عیسیٰ کی الوہیت کے دعویداروں کے لیے جواب ہو کیونکہ جو ماں سے پیدا ہوتا ہے ، عالم جنین کے تغییرات میں سے گزرتا ہے اور عالم مادہ کے تغیرات و تحولات میں داخل ہے وہ کس طرح خدا ہوسکتا ہے خدا تو تمام تغیرات اور تبدیلیوں سے بالاتر ہے ۔

۴۶۔ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَکَہْلًا وَمِنْ الصَّالِحِینَ۔
۴۶۔ اور وہ لوگوں سے گہوارہ میں اور ادھیڑ عمر میں گفتگو کرے گا اور وہ صالحین میں سے ہے ۔
تفسیر

اب اس آیت میں حضرت عیسیٰ کی گہوارہ میں گفتگو کا تذکرہ ہے کیونکہ جیسا کہ سورہ مریم میں آئے گا وہ اپنی والدہ سے تہمت دور کنے کے لئے گہوارے میں بول اٹھے اور فصیح زبان میں خدا کے حضور اپنے مقام بندگی اور مقام ِ نبوت کا آشکار کیا ۔ اور چونکہ ممکن نہیں کہ پیغمبر ناپاک اور آلودہٴ رحم سے پیدا ہو اس لیے اس اعجاز کے ذریعے اپنی والدہ کی پاکیزگی کو ثابت کیا ۔
توجہ رہے کہ ” مہد “ نوزائیدہ بچے جت سونے اور آرام کرنے کے لئے تیار کی جانے والی یا جگہ کوکہتے ہیں ۔ فارسی میں یہ ” گہواہ“ کے مفہوم کے قریب قریب ہے البتہ ” گہوارہ“ پورے طور پر ” مہد “ کا ہم معنی نہیں کیونکہ گہوارہ میں حرکت کا مفہوم بھی پوشیدہ ہے لیکن مہد ہر ایسی جگہ کو کہتے ہیں جو نوزائیدہ بچے کے لیے بنائی جائے ۔
ضمناً اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح (ع) اپنی ولادت سے لے کر ادھیڑ عمر تک حق بات کہتے رہیں گے ۔ گویا تمام عمر مخلوق کو تبلیغ و ہدایت کے لئے قدم اٹھاتے رہیں گے اور ایک لمحے کے لئے بھی آرام سے نہیں بیٹھیں گے ۔
یہ بھی توجہ رہے کہ ” کھولة“ ” کھل “ کے مادہ سے ہے اور یہ ” بوڑھے“ کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ادھیڑ عمر افراد کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ بعض علماء لغت نے صراحت کی ہے کہ ۲۴ سے لے کر ۵۱ سال تک درمیانی زمانہ کہولت ہے ۔ اس سے کم عمر والے کو ”شاب“کہتے ہیں اور اس سے زیادہ عمر والے کو ” شیخ “ کہتے ہیں ۔
حضرت عیسی (ع) کے بارے میں یہ تعبیر گویا ایک قسم کی پیش گوئی ہے کہ وہ اس دنیا میں دوبارہ آئیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تواریخ کے مطابق ۳۳ سال عمر میں حضرت عیسیٰ لوگوں کے درمیان سے اٹھ گئے اور آسمان کی طرف صعود کیا اور یہ امر ان تمام روایات سے ہم آہنگ ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ امام مہدی علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں میں پلٹ آئیں گے اور آنجباب کی تائید کریں گے ۔
آیت کے آخر میں حضرت عیسیٰ کی مختلف صفات کے تذکرے کے بعد فرمایا گیا ہے : وہ صالحین میں سے ہوں گے ( و من الصالحین) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صالح ہونا بہت بڑا عزاز اور افتخار ہے اور صالح کے مفہوم میں تمام انسان قدر یں مجتمع ہیں ۔

 (۴۷) قَالَتْ رَبِّ اٴَنَّی یَکُونُ لِی وَلَدٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ قَالَ کَذَلِکِ اللهُ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ إِذَا قَضَی اٴَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ ۔
ترجمہ
۴۷۔ ( مریم (ع) نے ) کہا : پروردگار! مجھ سے بچہ کیوں کر ہوگا جب کہ کسی شخص نے مجھے چھوا نہیں ( جواب میں ) فرمایا : خدا اسی طرح جسے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، جب وہ کسی چیز کا فیصلہ کرلیتا ہے تو بس کہتا ہے ہو جاتو وہ ہوجاتی ہے ۔
 

سیح (ع) کی ولادت کا واقعہمیرے خدا: کیسے ہوسکتا ہے کہ مجھ سے بچہ پیدا ہو جب کہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma