فقط خدا کے عبادت کرو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
”یلون “ ”لیّ“ ( بروزن ” حیّ“ )سے ہے ۔مقدس عہد و پیمان

تفسیر اس سے پہلے ہم توجہ دلا چکے ہیں کہ اہل کتاب ( یہود و نصاریٰ ) کی بری عادات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ حقائق میں تحریف کردیا کرتے تھے ۔ حضرت عیسی ٰ کے بارے میں ان کا الوہیت کا دعویٰ انہی تحریفات میں سے ایک ہے ۔ وہ کہتے تھے حضرت عیسیٰ نے خود ان بات کا حکم دیا ہے ۔ بعض لوگ چاہتے تھے کہ یہی موہوم خیا ل وہ پیغمبر اسلام کی پرستش کی تجویز پیش کرنے والے ایسے تمام افراد کو صریح اور قطعی جواب دیا ہے ۔
آیت کہتی ہے کہ پیغمبر اسلام ، کسی اور نبی یا فرشتوں ، میں سے کسی کی عبادت نہیں ہوسکتی اور اگر اہل کتاب یہ خیال کرتے یں کہ حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نے انہیں اپنی عبادت کی دعوت دی ہے تو وہ اشتباہ کرتے ہیں
” مَا کَانَ لِبَشَرٍ اٴَنْ یُؤْتِیَہُ اللهُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُونُوا عِبَادًا لِّی مِنْ دُونِ اللهِ “
کسی انسان کو حق نہیں پہنچتا کہ خدا اسے آسمانی کتاب، علم و دانش اور نبوت سے نوازے اور وہ لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دے ، حالانکہ تمام انبیاء نے بالا تفاق لوگوں کو ایک اکیلے خدا کی عبادت کی دعوت دی ہے ۔ یہ آیت نفی مطلق کے معنی میں ہے ۔
یعنی خدا کی طرف سے بھیجے گئے لوگ جنہیں علم وحکمت کا وافر حصہ بخشا گیا ہے کسی وقت بھی بندگی اور عبودیت کے مر حلے سے تجاوز نہیں کریں گے ۔ خد اکے بھیجے ہوئے رہبر ہمیشہ عام لوگوں کی نسبت بار گاہ الہٰی میں زیادہ منکسر اور خاضع رہتے ہیں لہٰذا وہ بندگی اور توحید کی شاہراہ نہیں چھوڑ سکتے اور لوگوں کو شرک کے گڑھے میں نہیں پھینک سکتے ۔
”وَلَکِنْ کُونُوا رَبَّانِیِّینَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْکِتَابَ وَبِمَا کُنتُمْ تَدْرُسُونَ“۔
رَبَّانِیِّین“ جمع ہے ” ربّانی“ کی ، یہ لفظ ایسے شخص کے لئے بولاجاتا ہے جس کا رشتہ اور ربط پروردگار سے محکم اورمضبوط ہو ۔ چونکہ یہ لفظ ” ربّ“ کے مادہ سے ہے اس لئے اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو دوسروں کی تدبیر اصلاح اور تربیت کرے عرب ادب کے قواعد کی رو سے یہ لفظ ” منسوب“ہے البتہ ” یاءِ نسبت “ کی اضافت کے وقت اس میں ” اَلِفْ“ کا اضافہ ہوجاتا ہے جیساکہ ” بحرین “ سے منسوب بہ کو ” بحرانی “ کہتے ہیں ۔ یہاں بھی اسی صورت میں ” ربّانی “ کہا گیا ہے ۔
مندرجہ بالا جملے میں قرآن کہتا ہے : انبیاء کو زیبا نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنی پرستش کی دعوت دیں ان کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ لوگوں کو آیات الہٰی کی ” تعلیم “ دیں اور حقائق کی ” تدریس کے ذریعہ لوگوں کو علماء ربّانی بندیں اور وہ ایسے لوگ تیار کریں جو خدا کے علاوہ کسی کی پرستش نہ کریں اور علم و دانش اور معرفت کے سوا کسی چیز کی طرف دعوت نہ دیں ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ مذکورہ جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کا مقصد اراد کی تربیت کرنا نہ تھا بلکہ ان کا کام مطمئن ، تربیت کرنے والے مختلف گروہوں کے لئے رہبر تیار کرنا تھا ، یعنی ایسے افراد تیار کرنا نہ تھا بلکہ ان کا مطمئن ، تربیت کرنے والے اور مختلف گروہوں کے لئے رہبر تیار کرنا تھا ۔ یعنی ایسے افراد تیار کرنا جن میں سے ہر کوئی ایک وسیع علاقے کو اپنے علم ، ایمان اور دانش سے روشنی بخشے ۔
اوپر والی آیت میں پہلے مسئلہ تعلیم کا ذکر ہے ۔ پھر تدریس کا تذکرہ ہے ۔ ان دو الفاظ میں یہ فرق ہے کہ تعلیم ایک وسیع و عریض معنیٰ کا حامل ہے ۔ اس میں گفتار و کردار کے ذریعے پڑھے لکھے یا ان پڑھ ہر طرح کے لوگوں کو تعلیم دینا شامل ہے لیکن تدریس ایسی تعلیم کے لئے بولا جاتا ہے جس کا تعلق کتاب اور کاغذ سے ہو اور اصطلاح کے لحاظ سے تعلیم سے ” اخص“ اور خصوصی ہے ۔
”وَلاَیَاٴْمُرَکُمْ اٴَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلاَئِکَةَ وَالنَّبِیِّینَ اٴَرْبَابًا “
اس آیت کی گفتگو گذشتہ بحث کی تکمیل ہے ۔ اس میں فرمایا گیا ہے : جیسے انبیاء لوگوں کو اپنی پرستش کی دعوت دیتے اسی طرح انہیں فرشتوں اور دیگر انبیاء کی عبادت کی دعوت بھی نہیں دیتے ۔
ایک طرف تویہ جملہ مشرکین عرب کاجواب ہے، جو فرشتوں کو خداکی بیٹیاں سمجھتے تھے اور یوں ان کی ایک طرح سے ربوبیت کے قائل تھے، یونہی یہ

” صَا ئِبِین“کاجواب بھی ہے جو اپنے آپ کو حضرت” یحییٰ (علیه السلام) “کا پیرو کار بتاتے تھے اور فرشتوں کا مقام پرستش کی حد تک اوپر لے جاتے تھے ۔
دوسری طرف یہ یہودیوں کا بھی جواب ہے جو حضرت ” عزَیر (علیه السلام)“ کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور یوں ان کے لئے ربوبیت کے ایک حصے کے قائل تھے اور اس عقیدے کو پیغمبر کے شایان شان ہ رگز نہیں کہ وہ لوگوں کو غیر خدا کی ربوبیت کی طرف دعوت دے ۔
”اٴَیَاٴْمُرُکُمْ بِالْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ اٴَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ۔“
آخر میں فرمایا : کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبر تمہیں کفر کی دعوت دے جب کہ تم اسلام اور توحید کا راستہ اپنا چکے ہو ۔
کہے بغیر واضح ہے کہ یہاں اسلام سے مراد دیرگ بہت سے مواقع کی طرح اس کا وسیع معنی ہے یعنی فرمانِ خدا ، ایمان اور توحید کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ۔
یعنی کیسے ممکن ہے کہ کوئی ایسا پیغمبر ہو جو پہلے تو لوگوں کو ایمان اور توحد کی دعوت دے اور پھر انہیں شرک کی راہ دکھائے یا یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ایک پیغمبر دیگر تمام انبیاء کی زحمتوں کو بر باد کردے جنہوں نے اسلام کی دعوت دی ہے اور وہ لوگوں کو کفر و شرک کی طرف کیسے راغب کرسکتا ہے ۔
ضمنی طور پر آیت عصمتِ انبیاء اور فرمان خدا سے ان کے انحراف نہ کرنے کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے ۔ ۱
”وَ مَا کَانَ لِبشرٍ اَنْ یَاٴْمُرَکُمْ اٴَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلاَئِکَةَ وَالنَّبِیِّینَ اٴَرْبَابًا “۔
یعنی ۔ کسی بشر کو یہ حق نہیں کہ تمہیں حکم دے کہ انبیاء اور ملائکہ کو پروردگار بنالو ۔
بشر پرستی ممنوع ہے
مندرجہ بالاآیات پوری صراحت سے غیر خڈا کی ہر قسم کی پرستش ، بالخصوص بشر پرستی کو ممنوع قرار دیتی ہیں اور انسان میں آزادی و استقلال کی روح پیدا کرتی ہیں ۔ یہی وہ روح ہے جس کے بغیر انسان ،انسان کہلانے کا مستحق نہیں ۔
طویل انسانی تاریخ میں ایسے بہت سے افراد ہو گزرے ہیں جو اقتدار تک پہنچنے سے پہلے معصومانہ چہرہ رکھتے تھے اور لوگوں کو حق ، عدالت ، حریت ،آزادی اور ایمان کی دعوت دیتے تھے لیکن جن ان کے اقتدار کی بنیادیں معاشرہ میں مستحکم ہوگئیں تو آہستہ آہستہ انہوں نے اپنا راستہ بدل لیا اور وہ شخص پرستی کی طرف مائل ہوئے اور لوگوں کو اپنی پرستش کی دعوت دینے لگے ۔
در حقیقت دعوتِ حق اور دعوت باطل دینے والوں کی پہچان کا یہی ایک راستہ ہے کہ جو حق کی دعوت دینے والے جن کے سر کردہ افراد انبیاء (علیه السلام) اور آئمہ علیہم السلام ہیں اقتدار پالینے کے بعد بھی پہلے کی طرح لوگوں کو دین و انسانیت کے مقدس مقاصد کی طرف دعوت دیتے ہیں جن میں توحید ، یگانہ پرستی اور آزادی کی دعوت شامل ہے لیکن باطل کی دعوت دینا ہے اور وہ لوگوں کو ایک قسم کی اپنی عبودیت کیتشویق و ترغیب دیتے ہیں ۔ ان کے گرد بے حیثیت لوگ جمع ہوجاتے ہیں جن کا م خوشامد اور چاپلوسی ہوتا ہے اور وہ غرور و کم ظرفی کے ذریعے ایسی چیزوں کو ظاہر کرتے ہیں ۔
ایک جاذب نظر حدیث حضرت علی(علیه السلام) سے منقول ہے ۔ یہ حدیث آنجناب (علیه السلام) کے حقیقی روحانی چہرے کو واضح کرتی ہے اور یہ ہماری بحچ کے لئے شاہد بھی ہے ۔ جب امام عالی مقام (علیه السلام) عراق کے سر حدی شہر انبار میں پہنچے تو کچھ کسان اپنے مروّجہ طریقے کے مطابق آپ(علیه السلام) کے سامنے سجدہ میں گر پڑے ۔ امام علیہ السلام نے نہ صرف یہ کہ اس فعل کو ناپسند کیا بلکہ بہت زیادہ غضبناک ہو ئے اور انہیں کہنے لگے:
”ماھٰذا الذی صنغتموہ؟“
تم نے یہ کیسا کام انجام دیا ہے ؟
فقالوا: ” خلق منا نعظم بہ امرائنا “
وہ کہنے لگے : یہ کام ہم اپنے باد شاہوں اور امراء کی تعظیم کے طور پر انجام دیتے ہیں ۔
فقال : ” و اللہ ماینتفع بھٰذا امرائکم و انکم لتشقون علی انفسکم فی دنیا کم و تشقون بہ فی اخرتکم وما ٓ اخسر المشقة قراء ھا العقاب، و اربح الدعة معھا الامان من النار ۔“( نہج البلاغة ، کلمات قصار ۳۷)
آپ (علیه السلام)نے فرمایا:
بخدا تمہارے امراء اور حکام کو اس عمل سے کوئی فائدہ نہیں پہچنتا اور تم اپنے آپ کو اس سے دنیا میں رنج و تکلیف میں مبتلا کرتے ہوئے اور آخرت میں بد بختی میں گرفتار کرتے ہو ۔ کس قدر نقصان دے ہے وہ تکلیف و مشقت کہ جس کے بعد عذابِ خدا بھی اور کس قدر فائدہ بخش ہے وہ آرام و آزادی جس کے ساتھ آتشِ جہنم سے بھی امان حاصل ہو ۔

۸۱۔وَإِذْ اٴَخَذَ اللهُ مِیثَاقَ النَّبِیِّینَ لَمَا آتَیْتُکُمْ مِنْ کِتَابٍ وَحِکْمَةٍ ثُمَّ جَائَکُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہِ وَلَتَنْصُرُنَّہُ قَالَ اٴَاٴَقْرَرْتُمْ وَاٴَخَذْتُمْ عَلَی ذَلِکُمْ إِصْرِی قَالُوا اٴَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُوا وَاٴَنَا مَعَکُمْ مِنْ الشَّاہِدِینَ۔

ترجمہ
۸۱۔ وہ وقت (یاد کرو )جب خدا نے انبیاء (اور ان کے پیروکاروں سے ) یہ تاکید ی عہد و پیمان لیا کہ جب میں تمہیں کتاب و حکمت دے دوں اس کے بعد تمہارے پا س ایک پیغمبر آئے جو اس کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے تو اس پر ایمان لے آنا اور اس کی مدد کرنا ( (پھر خدا نے ان سے ) کہا : کیا اس چیز کا قرار کرتے ہو اور اس پر تاکیدی عہد و پیمان باندھتے ہو ۔ انہوں نے کہا:( جی ہاں ) ہم اقرار کرتے ہیں ۔ ( خدا نے ان سے ) کہا : اس مقدس عہد و پیمان پر ) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ۔

 


۱مشہور قرائت میں جس کے مطابق قرآن کا موجودہ متن ہے ” ولایامُرَکم “ کا جملہ منصوب (راء پر زبر کے ساتھ) پڑھا جاتا ہے ۔ اور حقیقت میں اس کا تعلق گذشتہ آیت کے ” اَنْ یّوٴتیہُ الللہ “ سے ہے اور یہ اس پر عطف ہے او ریہاں پر ” لا“ گذشتہ آیت میں آنے والے ”ما “کی تاکید ہے جو نافیہ ہے ۔ اس بناء پر اس جملے کا معنی کچھ یوں ہوگا ۔
 
”یلون “ ”لیّ“ ( بروزن ” حیّ“ )سے ہے ۔مقدس عہد و پیمان
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma