خدا تعالیٰ کی شہادت سے مراد عملی اور فعلی شہادت ہے نہ کہ قولی یعنی خدا تعالیٰ نے جہان آفرینش کو پیدا کیا ۔
اس میں ایک نظام قائم ہے ، ہر جگہ اس کے قوانین ایک سے ہیں اور اس کا ایک ہی پروگرام ہے ۔ حقیقت میں ایک اکیلا اپنے سے وابستہ یگانہ نظام بذات خود نشاندہی کرتا ہے کہ پیدا ہونے والا معبود اس جہاں میں ایک سے زیادہ نہیں ہے اور سب مخلوقات کا یک ہی منبع اور سر چشمہ ہے ۔ اس بناء پر ایک ہی نظام کی ایجاد ، ذات الہٰی کی یگانگت اور یکتائی پر ایک شہادت ہے ۔
دوسری طرف فرشتوں اور علماء کی شہادت قولی پہلو رکھتی ہے کیونکہ ان میں سے ہر کوئی حسب حال کلام کے ذریعے اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے ۔ ایک لفظ کے مختلف مفاہیم کی اور بھی بہت سی مثالیں آیات قرآنی موجود ہیں :۔
مثلاً ” اِنَّ اللَّہَ وَ مَلائکتہ یُصَلّونَ عَلیٰ النبیِّ “
یعنی اللہ اور ا س کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ ( احزاب ۔۵۶) ۔
اس میں خدا کی طرف سے درود بھیجنے کے اور معنی ہیں ۔ خدا کی طرف سے رحمت بھیجنا ہے اور فرشتوں کی طرف سے رحمت بھیجنے کا تقاضا ہے ۔ البتہ فرشتوں کی گواہی عملی پہلو میں بھی فرق رکھتی ہے کیونکہ وہ صرف اسی کی پرستش کرتے ہیں اور کسی اور معبود کے سامنے تسلیم خم نہیں کرتے ۔