۷۴۔ تاریخ تشیع

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
ہمارے عقیدے
۷۳۔ متعہ۷۵۔شیعیت کے مراکز

ہمارا عقیدہ ہے کہ:تشیع کی بنیاد پیغمبر کے دور میں آنحضرت کی احادیث کے باعث پڑی ۔ اس مطلب پر ہمارے پاس برے واضح ثبوت موجود ہیں ۔
بہت سے مفسرین نے اس آیت کریمہ (
انّ الّذین آمنوا وعملوا الصالحات اولٰٓئک ھم خیر البریة) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے وہ (خدا کی ) بہترین مخلوق ہیں ( سورئہ بینة ،آیت ۷) کے ذیل میں پیغمبر اکرم (ص) کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام اور ان کے شیعہ
ہیں ۔
نشہور مفسر سیوطی نے درالمنثور میں ابن عساکر سے اور اس نے اجبر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ ہم پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ علی (ع) ہماری طرف آئے ۔جب آنحضرت (ص)کی نگاہ ان پر پڑی تو آپ نے فرمایا۔”
والّذینفسی بیده  انّ ھٰذا و شیعتہ ھم الفائزون یوم القیامة“‘یعنی اس ذات کی قسم جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان ہے ،بے شک یہ اور اسکے شیعہ ہی قیامت کے دن کامیاب ہیں۔اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی

 

 (انّ الّذین آمنوا وعملوا الصالحات اولٰٓئک ھم خیر البریة) اس کے بعد جب حضرت علی علیہ السلام جب اصحاب کی محفل میں آتے تھے تو وہ یہ کہتے تھے ”جاء خیر البریّة“‘خدا کی مخلوق کی سب سے بہترین فرد آگئی۔(الدر المنثور ،جلد ۶ صفحہ ۲۷۹)
”ابن عباس “۔”ابو حریرہ “،”ابن مردویہ“اور ”عطیہ عوفی“ سے بھی یہی بات (مختصر سے فرق کے ساتھ)منقول ہے۔(مزید معلومات کے لئے پیام قرآن جلد ۹ صفحہ ۲۷۹ اور ما بعد کی طرف رجوع کریں )۔
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ علی(ع) سے محبت رکھنے والوں کے لئے لفظ ”شیعہ“کا انتخاب نبی اکرم (ص) کے دور میں ہی ہو گیا تھا ۔ یہ نام انہیں پیغمبر اکرم (ص) نے عطا کیا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ عصر خلفاء یا عصر صفویہ میں انہیں یہ نام ملا ہو۔
اگر چہ ہم دوسرے اسلامی فرقوں کا احترام کرتے ہیں اور انکے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پر حج ادا کرتے ہیں اور اسلام کے مشترکہ اہداف کے لئے تعاون کرتے ہیں ،لیکن اس کے باوجود ہمارا عقیدہ ہے کہ علی (ع) کے ماننے والے بعض خصوصیات کے حامل ہیں اور ان پر نبی اکرم (ص) کی خاص توجہ اور نظر کرم تھی۔اسی لئے ہم نے اس مکتب کی پیروی اختیار کی ہے۔
شیعوں کے بعض مخالفین اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ مذہب شیعہ اور عبد اللہ ابن سبا کے درمیا رابطے کی کڑیاں ملائیں ۔اور وہ ہمیشہ یہ بات کہتے ہیں کہ شیعہ عبداللہ ابن سبا کے پیرو کار ہیں جو حقیقت میں یہودی تھا اور بعد میں اسلام لایا تھا۔یہ بات بہت ہی عجیب ہے کیونکہ شیعوں کی تمام کتابوں کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس مذہب کے ماننے والے اس شخص سے ذرہ برابر لگاؤ نہیں رکھتے ۔ اس کے بر عکس شیعوں کی تمام رجالی کتابوں میں عبد اللہ ابن سبا کو ایک گمراہ اور منحرف شخص قرار دیا گیا ہے ۔ہماری بعض روایتوں کے مطابق حضرت علی (ع) نے اس کے مرتد ہونے کی وجہ سے اسکے قتل کا حکم جاری کر دیا تھا (”تنقیح المقال فی علم الرجال “عبد اللہ ابن سبا کے ذکر میں اور علم رجال میں شیعوں کی دیگر مشہور و معروف کتب کی طرف رجوع کریں )۔
علاوہ از یں تاریخی حوالے سے عبد اللہ ابن سبا کا وجود ہی مشکوک ہے ۔بعض محققین کا خیال ہے کہ عبد اللہ ابن سبا ایک فرضی اور افسانوی شخصیت ہے اور اس نام کا شخص حقیقت میں موجود نہیں تھا۔چہ رسد باین کہ وہ مذہب شیعہ کا بانی ہو۔(کتاب عبد اللہ ابن سبا ، مصنفہ علامہ مرتضیٰ عسکری)بالفرض اگر ہم اس کو ایک فرضی انسان نہ بھی سمجھیں تب بھی ہماری نظر میں وہ ایک گمراہ اور منحرف شخص تھا ۔

 

 

۷۳۔ متعہ۷۵۔شیعیت کے مراکز
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma