۶۶۔تقیہ اور اس کا فلسفہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
ہمارے عقیدے
۶۵۔قانون سازی کی ضرورت نہیں۶۷۔تقیہ کہاں حرام ہے؟

ہمارا عقیدہ ہے کہ:جب بھی انسان متعصب ،ہٹ دھرم اور غیر معقول افراد کے درمیان اس طرح پھنس جائے کہ ان کے درمیان اپنے عقیدہ کا اظہار اس کے لئے جانی یا مالی خطرہ کا باعث ہو اور عقیدہ کے اظہارکا کوئی خاص فائدہ بھی نہ ہو تو وہاں اس کی یہ ذمّہ داری ہے کہ اپنے عقیدہ کا اظہار نہ کرے اور نہ اپنی جان گنوائے۔اس عمل کا نام” تقیہ “ ہے۔ہم نے یہ بات قرآن مجید کی دو آیتوں اور عقلی دلیل سے اخذ کی ہے۔
قرآن مومن آل فرعون کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے ۔(
وقال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانہ ا تقتلو ن رجلاان یقول ربّی اللہ و قد جآئکم بالبینآت من رّبکم )یعنی آل فرعون میں سے ایک مومن شخص نے جو اپنا ایمان چھپاتا تھا (موسیٰ(ع) کا دفاع کرتے ہوئے ) کہا :کیا تم اس مرد کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار خدا ہے؟حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے واضح دلائل لیکر آیا ہے۔(سورئہ مومن ،آیت ۲۸)
ےکتم ایمانہ کا جملہ صریح الفاظ میں تقیہ کا مسئلہ بیان کر رہا ہے ۔کیا یہ درست تھا کہ مومن آل فرعون اپنا ایمان ظاہر کرتے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے جبکی کوئی فائدہ بھی نہ ہوتا؟
صدر اسلام کے بعض مجاہد اور مبارز مومنین کو جو متعصب مشرکین کے چنگل میں پھنس چکے تھے ،ا ن کو تقیہ کا حکم دیتے ہوئے قرآن یوں فرماتا ہے

 

(لا یتخذ المومنون الکافرین اولیآء من دون المومنین و من یفعل ذٰلک فلیس من اللہ فی شئی الّا ان تتّقوا منھم تقاة)یعنی با ایمان لوگ مومنین کو چھوڑ کر کافروں اور مشرکوں کو اپنا ولی اور دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کریگا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہوگا مگر یہ کہ (تم خطرہ کے وقت)ان سے تقیہ کرو۔(سورئہ آل عمران ،آیت ۲۸)
بنابر ایں تقیہ (یعنی عقیدہ کو چھپانا)وہاں جائز ہے جہاں انسان کی جان ، مال اور عزت کو متعصب اور ہٹ دھرم دشمنوں سے خطرہ ہو اور وہاں عقیدہ کے اظہار کا فائدہ بھی کچھ نہ ہو۔ایسے موقعہ پر بلا وجہ انسان کو خطرہ میں ڈالنا اور افردای قوّت کو ضائع کرنا صحیح اور معقول نہیں ہے۔بلکہ اسے محفوظ رکھنا چاہئے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔اسی لئے حضرت امام جعفر صادق (ع) کی مشہور حدیث ہے۔”
التقیة ترس المومن“یعنی تقیہ مومن کی ڈھال ہے(وسائل ،جلد ۱۱ صفحہ ۴۶۱حدیث ۶ باب ۲۴۔بعض احادیث میں ”ترس اللہ فی الارض“یعنی زمین میں خدا کی ڈھال کے الفاظ مذکور ہیں۔)
یعنی ترس(ڈھال ) کا استعمال اس لطیف نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ تقیہ دشمن کے مقابلہ میں دفاع کا ایک ذیعہ ہے۔
مشرکین کے مقابلہ میں عمار یاسر کے تقیہ کرنے اور پیغمبر اسلام (ص) کی طرف سے اس پر ان کی تائےد فرمانے کا واقعہ بہت مشہور ہے۔(بہت سے مفسرین، مورّخین اور ارباب حدیث نے اپنی مشہور کتاب میں یہ حدیث بیان کی ہے ۔واحدی نے اسباب النزول میں اور طبری ،قرطبی ،زمخشری ،فخر رازی ،بیضاوی اور نیشاپوری نے اپنی تفسیر کی کتابوں میں ،سورئہ نحل کی آیت۱۰۶کے ذیل میں اسکا تذکرہ کیا ہے۔)
جنگ کے میدانوں میں دشمن سے اسلحہ اور سپاہیوں کو چھپانا اور جنگی رازوں کو مخفی رکھنا وغیرہ سب کے سب انسانی زندگی میں ایک قسم کا تقیہ ہیں۔بہر حال جہاں حقیقت کا اظہار خطرہ کا یا نقصان کا باعث ہو اور اظہار کا کوئی فائدہ بھی نہ ہو وہاں تقیہ کرنا (یعنی چھپانا)ایک عقلی اور شرعی حکم ہے جس پر نہ فقط شیعہ بلکہ دنیا کے تمام مسلمان ،بلکہ دنیا کے تمام عقلاء ضرورت کے وقت عمل پیرا ہوتے ہیں ۔
اس کے باوجود تعجب خیز بات یہ ہے کہ بعض لوگ تقیہ کو شیعوں اور مکتب اہل بیت کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں اور اسے ان کے خلاف ایک اہم اعتراض کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔حالانکہ بات بالکل واضح ہے۔تقیہ کا سرچشمہ قرآن ،سنّت ،نبی (ص)کے صحابہ کی سیرت اور دنیا کے تمام عقلاء کا طرز عمل ہے۔

 


۶۵۔قانون سازی کی ضرورت نہیں۶۷۔تقیہ کہاں حرام ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma