۷۲۔مراسم عزا داری کا فائدہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
ہمارے عقیدے
۷۱۔انبیاء اورآئمہ (ع)کے مزاروں کی زیارت۷۳۔ متعہ

ہمارا عقیدہ ہے کہ-:شہدائے اسلام بالخصوص شہیدان کربلا کی عزاداری اور ان کا سوگ منانے کا مقصد ان کی یاد کو زندہ رکھنا اور اسلام کی راہ میں ان کی قربانیوں کا پرچار ہے۔اسی لئے ہم مختلف دنوں بالخصوص عاشور کے ایام (محرم کے پہلے دس دن )میں عزا داری مناتے ہیں جو رسول کی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام کے لخت جگر ،بہشت کے جوانوں کے سردار (”الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنة“حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔یہ حدیث صحیح ترمذی جلد ۲ صفحہ ۳۰۹،۳۰۷، میں ابو سعید خدری اوٖر حذیفہ سے منقول ہے۔نیز صحیح ابن ماجہ باب فضائل اصحاب رسول اللہ (ص) مستدرک الصحیحین ،حلیةالاولیاء ،تاریخ بغداد ،اصابة ابن حجر ،کنز العمال ،ذخائر اعقبی اور دوسری بہت سی کتابوں میں مذکور ہے۔)امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے ایام ہیں۔ہم ان کی زندگی اور ان کے کارناموں کا ذکر کرتے ہیں ،ان کے اہداف پر بحث کرتے ہیں اور ان کی پاک روحوں پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔
ےزید ایک فاجر،خود سراور اسلام سے بیگانہ شخص تھا ۔لیکن بد قسمتی سے اسلامی خلافت پر قابض تھا ۔امام حسین علیہ السلام نے سن ۶۱ ہجری میں اس کے خلاف قیام کیا۔اگر چہ وہ اور ان کے تمام ساتھی عراق میں کربلا نامی سرزمین پر شہید کر دئے گئے اور انکی خواتین قیدی بنا لی گئیں لیکن انکے خون نے اس دور کے تمام مسلمین میں ایک حیرت انگیز جزبہ اور ولولہ پیدا کر دیا۔بنی امیہ کے خلاف ےکے بعد دیگر بغاوتیں ہونے لگیں۔ان بغاوتوں نے بنی امیہ کے ظلم وستم کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔آخر کار انکا ناپاک وجود ختم ہو گیا ۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ واقعہ عاشورہ کے بعد بنی امیہ کی حکومت کے خلاف جتنی بغاوتیں ہوئیں سب کا عنوان
”الرضا لآل محمد “اور ”یالثارات الحسین “کے نعرے تھے ۔یہاں تک کہ ان میں سے بعض نعرے تو بنی عباس کے ابتدائی دورر حکومت میں بھی بلند ہوتے رہے۔(ابو مسلم خراسانی جس نے عباسی حکومت کا خاتمہ کیا،اس نے مسلمانوں کی بعد ہم دردیاں حاصل کرنے کے لئے الرضا لآل محمد کا نعرہ لگایا ۔کامل ا بن اثیر ،جلد ۵ صفحہ ۳۷۲۔توابین کا قیام بھی”یا لثارات الحسین “کے نعرہ سے شروع ہوا۔الکامل ،جلد۴ صفحہ ۱۷۵ ۔مختار ابن ابو عبیدہ ثقفی کا قیام بھی اسی نعرہ کے ساتھ ہوا تھا،جلد ۴ صفحہ۲۸۸۔بنی عباس کے خلا ف جن لوگوں نے قیام کیا ان میں سے ایک حسین ابن علی شہیدفتح ہیں۔انہوں نے اپنا مقصد ایک جملے میں اس طرح بیان کیا ۔”و ادعوکم الیٰ الرضا من آل محمد “یعنی مین تمہیں آل محمد کی خوشنودی حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔مقاتل الطالبین ،صفحہ ۲۹۹ اور تاریخ طبری ،جلد ۸ صفحہ۱۹۴)
امام حسین علیہ السلام کا خونچکاں قیام آج ہم شیعوں کے لئے ہر قسم کی استبدادیت یا سینہ زوری اور ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک نمونئہ عمل اور لا ئحہ عمل کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ ”
ھیھات منّاالذلّة“(ہم ہر گزذلت قبول نہیں کرتے )اور ”انّ الحیاة عقیدة و جھاد “(زندگی ایمان اور جھاد ہے) کے نعروں نے،جو کربلا کی خونین تحریک کا عطیہ ہےںہماری ہمیشہ مدد کی ہے تاکہ ہم ظالم اور جابر حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور سےد الشہدا ء امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی پیروی کرتے ہوئے ظالم کے شر کو دفع کریں ۔(انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ نعرہ ہر طرف دکھائیدیتے ہیں )۔
مختصر یہ کہ شہدائے اسلام خاص کر شہدائے کربلا کی یاد تازہ کرنے سے ہمارے اندر عقیدہ اور ایمان کی راہ میں شہادت ،ایثار ،شجاعت اور فداکاری کا جزبہ ہمیشہ بیدار رہتا ہے ۔ یہ ہمیں عذت سے زندہ رہنے اور ظلم کے آگے سر نہ جھکانے کا درس دیتا ہے۔ یہ ہے ان واقعات کو زندہ رکھنے اور ہر سال عزاداری کا سلسلہ باقی رکھنے کا فلسفہ ۔
ممکن ہے بعض لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ ہم عزاداری کے مراسم میں کیا کرتے ہیں اور وہ اسے ایک ایسا تاریخی واقعہ سمجھے کہ جس پر عرصہ سے فراموشی کی گرد و غبار پڑی ہو۔لیکن ہم خود جانتے ہیں کہ ان واقعات کی یاد زندہ رکھنے سے ہمارے کل ،آج اور آئندہ کی تاریخ پر کیا اثرات مترتب ہوئے ہیں اور ہوں گے۔
غزوہ احد کے بعد سےد الشہداء حضرت حمزہ پر پیغمر اکرم ْ(ص) اور مسلمانو ں کے سوگ منانے کا واقعہ تاریخ کی سب مشہور کتابوں میں درج ہے ۔ رسول اکرم (ص) انصار کے ایک گھر کے پاس سے گزر رہے تھے ۔ آپ (ص) نے گریہ اور نوحہ کی آواز سنی۔ آپ کی آنکھیں بھی برسنے لگی اور چہرئہ اقدس سے آنسوں بہنے لگے ۔ آپ (ص) نے فرمایا : لیکن حمزہ پر کوئی رونے والا نہیں ہے۔سعد بن معاز نے جب یہ بات سنی تو وہ قبیلہ بنی عبد الاشہل کے بعض لوگوں کے پاس گئے اور انکی عورتوں کو حکم دیا :آنحضرت (ص) کے چچا کے گھر جاؤ اور سےد الشہدا ء حمزہ کا سوگ مناؤ(کامل ابن اثیر ،جلد ۲ صفحہ ۱۶۳و سیرہ ابن ہشام ،جلد ۳ صفحہ ۱۰۴)۔
واضح ہے کہ یہ کام حضرت حمزہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ باقی تمام شہداء کے معاملہ میں بھی اس پر عمل کرنا چاہئے ۔ہمیں چاہئے کہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے انکی یاد زندہ رکھیں اور اس طریقہ سے مسلمانوں کی رگوں میں نیا خون دوڑاتے رہیں ۔اتفاقا آج جب کہ میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں عاشورہ کا دن ہے(۱۰ محرم الحرام ۱۴۱۲ ہجری)۔
آج پورے عالم تشیع میں سچ مچ ایک عظیم ولولہ موجزن ہے۔جوان ،نوجوان اور بوڑھے سب مل کر سیاہ کپڑے پہنے ہوئے امام حسین (ع) اور شہدا ء کربلا کا سوگ من ا رہے ہیں ۔ ان سب کے دلوں اور ذہنوں میں ایک ایسا انقلاب برپا ہے کہ اگر انہیںاسلام کے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لئے کہا جائے تو سب اسلحہ اٹھا کر میدان میں اتر جائیں گے اور کسی قسم کی قربانی اور جاں نثاری سے دریغ نہیں کریں گے۔گویا سب کی رگوں میں شہادت کا خون دوڑ رہا ہے اور اس وقت اور اس گھڑی حضرت امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں کو اسلام کی قربان گاہ کربلا میں اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔
ان پر شکوہ مراسم میں جو ولولہ انگیز اشعار پڑھے جاتے ہیں وہ استعمار اور استکبار کے خلاف دندان شکن نعروں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ ہم ظلم کے سامنے نہ جھکنے اور ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینے کا اعلان کر رہے ہیں ۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ :یہ ایک عظیم معنوی سرمایہ ہے جس کی حفاظت کرنی چاہئے اور اسلام ،ایمان اور تقویٰ کی بقا کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

 

 

۷۱۔انبیاء اورآئمہ (ع)کے مزاروں کی زیارت۷۳۔ متعہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma