۵۴۔صحابہ،عقل اور تاریخ کی عدالت میں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
ہمارے عقیدے
۵۳۔حضرت علی (ع) سب صحابہ سے افضل ہیں ۔۵۵۔اہل بیت ،علوم پیغمبر (ص) سے ماٴخوز ہیں

ہمارا عقیدہ ہے کہ:پیغمبر (ص) کے اصحاب میں بڑے عظیم،جاں نثار اور عظمت والے لوگ تھے ۔قرآن و حدیث نے انکی فضیلت میں بہت کچھ بیان کیا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم تمام اصحاب پیغمبر (ص) کو معصوم سمجھنے لگیں اور کسی استثناء کے بغیر ان کے اعمال کو درست قرار دیں ۔کیونکہ قرآن نے بہت سی آیات (سورئہ توبہ،سورئہ نور ،اور سورئہ منافقین کی آیات)میں ایسے منافقین کا تذکرہ کیا ہے جو اصحاب پیغمبر (ص) میں شامل تھے۔ظاہری طور پر وہ ان کا حصّہ تھے لیکن اس کے باوجود قرآن نے ان کی بہت زیادہ مذمت کی ہے۔دوسری طرف سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے پیغمبر (ص) کے بعد مسلمانوں میں جنگ کی آگ بھڑکائی،انہوں نے وقت کے امام اور خلیفہ کی بیعت توڑ دی اور دسیوں ہزار مسلمانوں کا خون بہایا۔ کیا ہم یہ کہ سکتے ہیںکہ یہ افراد ہر لحاظ سے پاک و منزّہ تھے؟
بالفاظ دیگر نزاع اور جنگ(مثلا جنگ جمل و صفین) کے دونوں فریقوں کو کس طرح صحیح اور درست قرار دیا جا سکتا ہے؟یہ تضاد ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے۔کچھ لوگ اس کی توجیہ کے لئے ”اجتہاد“ کے بہانے کو کافی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک فریق حق پر تھا اور دوسرا خطا کار لیکن چونکہ اس نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا ہے لھذٰا خدا کے نزدیک اسکا عذر قابل قبول ہے،،بلکہ اسکو صواب ملے گا ۔ہمارے لئے اس استدلال کو قبول کرنا مشکل ہے۔
اجتہاد کا بہانہ بنا کر پیغمبر (ص) کے جانشین کی بیعت کیسے توڑی جا سکتی ہے؟ اور پھر جنگ کی آگ بھڑکا کر بے گناہ لوگوں کا خون کیسے بہایا جا سکتا ہے؟اگراجتہاد کا سہارا لیکر اس قدر بے تہاشا خونریزی کی توجیہ کی جا سکتی ہے تو پھر کون سا ایسا کام ہے جسکی توجیہ نہ ہو سکے؟
ہم واضح طور پر کہیں گے کہ ہمارے عقیدہ کی رو سے تمام انسانوں ،یہاں تک کہ پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب کی اچھائی برائی کا سار و مدار انکے اعمال پر ہے۔قرآن کا یہ زرّین اصول(
انّ اکرمکم عند اللہ اتقٰیکم) یعنی خدا کے نزدیک تم سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے(سورئہ حجرات آیت۱۲) ان کو بھی شامل ہے۔
لھٰذا ہمیں ان کے اعمال سامنے رکھتے ہوئے ان کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا ۔ یوں ہم ان سب کے بارے میں ایک منطقی موقف اختیار کرتے ہوئے کہ سکتے ہیں کہ جو لوگ آنحضرت (ص) کے دور میں مخلص اصحاب کی صف میں شامل تھے اور پیگمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد بھی وہ اسلام کی حفاظت میں کوشاں رہے اور قرآن کے ساتھ اپنے وعدہ کو نبھاتے رہے،ہم ان کو اچھا سمجھتے ہیں اور انکا احترام کرتے ہیں ۔ لیکن جو لوگ آنحضرت لے دور میں منافقین کی صف میں شامل تھے اور انہوں نے ایسے کام کئے جن سے پیغمبر (ص) کا دل دکھایا اور پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد انہوں نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا اور ایسے کام کئے جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے نقصان دہ تھے تو ہم انہیں نہیں مانتے۔ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے(
لا تجد قوما یومنون باللہ والیوم الآخر یوآدّون من حآدّاللہ ورسولہ ولوکانوا آبائھم او ابنائھم او اخوانھم اوعشیرتھم اولٰٓئک کتب فی قلوبھم الایمان)یعنی آپ خدا اور قیامت پر ایمان لانے والوں کو خدا اور رسول (ص) کے ساتھ نافرمانی کرنے والوں کے ساتھ دوستی کرتے ہوئے نہیں پائیں گے، اگر چہ وہ ان کے باپ ،اولاد ،بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ یہ لوگ ہیں جن کے صفحات قلوب پر اللہ نے ایمان کو لکھ دیا ہے۔(سورئہ مجادلہ ،آیت ۲۲)
جی ہاں ؛جو لوگ پیغمبر (ص) کی زندگی میں یا حضور کی ر حلت کے بعد پیغمبر (ص) کو تکلیف پہونچاتے رہے وہ ہمارے عقیدہ کے مطابق احترام کے قابل نہیں ہیں۔
لیکن یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پیغمبر (ص) کے بعض اصحاب نے اسلام کی ترقی کے لئے بڑی بڑی قربانیاں انجام دی ہیں ۔ خدا نے بھی ان کی تعریف و تمجید کی ہے۔اسی طرح جو لوگ ان کے بعد آئے یا دنیا کے خاتمہ تک آتے رہیں گے اگر وہ حقیقی اصحاب کے راستہ پر چلتے ہوئے ان ک کے مشن کو آگے بڑھائیں تو وہ بھی تعریف اور تمجید کے لائق ہیں ۔ارشاد ہوتا ہے
(السّابقون الاوّ لون من المھاجرین والانصار والّذین اتّبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ) یعنی مھاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے اوّلین افراد نیز نیکیوں میں انکی پیروی کرنے والوں سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں ۔(سورئہ توبہ ،آیت ۱۰۰)
یہ ہے پیغمبر اسلام (ص) کے اصحاب کے متعلق ہمارے عقیدہ کا خلاصہ ۔

 

 

۵۳۔حضرت علی (ع) سب صحابہ سے افضل ہیں ۔۵۵۔اہل بیت ،علوم پیغمبر (ص) سے ماٴخوز ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma