۵۱۔پیغمبر اکرم کے ذریعہ،حضرت علی (ع)کا تعین

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
ہمارے عقیدے
۵۰۔اماموں کا تعین،رسول (ص) کے ذیعے۵۲۔ہر امام کی تاکید،اپنے بعد والے امام کے بارے میں

ہمارا عقیدہ ہے کہ :پیغمبر اسلام (ص) نے متعدد جگہوں پرحضرت علی (ع) کو بالخصوص اپنے جانشین کے طور پر (خدا کے حکم سے)معین فرمایا ہے۔چنانچہ ایک دفعہ حجةالوداع سے لوٹتے وقت صحابہ کے ایک عظیم اجتماع میں غدیر خم (جحفہ کے نزدیک ایک جگہ) کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:(ایھاالنّاس الست اولٰی بکم من انفسکم قالوا بلیٰ،قال فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ) یعنی اے لوگوں کیا میں تم پر تمہاری بہ نسبت زیادہ اختیار نہیں رکھتا ؟انہوںنے کہا،کیوں نہیں۔آپ (ص) نے فرمایا :بس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی (ع) مولا ہے)۔(یہ حدیث متعدد اسناد کے ذریعہ نبی اکرم (ص) سے نقل ہوئی ہے ۔حدیث کے راویوں کی تعداد ۱۱۰ اصحاب اور ۸۴ تابعین سے زیادہ ہے۔۳۶۰ سے زیادہ مشہور اسلامی کتابوں میں یہ حدیث منقول ہے جس کی تفصیل اس مختصر سی کتاب میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ دیکھئے پیام قرآن ،جلد ۹ صفحہ ۱۸۱ اور مابعد۔)
یہاں چونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ان عقائد کی مزید دلائل بیان کریں اور بحث اور تمحیص کو طول دیں لہٰذایہی کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ مذکورہ حدیث کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ اسے ایک عام سی خوشنودی یا محبت کے اظہار کا عنوان دیا جا سکتا ہے جبکہ پیغمبر اسلام (ص) نے اتنے بڑے اہتمام اور تاکید کے سا تھ اسے بیان کیا ہے۔
کیا یہ وہی چیز نہیں ہے جس کا ابن کثٰیر نے اپنی تاریخ ”الکامل“میں ذکر کیا ہے؟کہ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی تبلیغ کے آغاز میں قرآنی آیت(
انذر عشیرتک الاقربین) کے نزول کے بعد اپنے عزیزوں کو جمع کیا اور انکے سامنے اسلام پیش کرنے کے بعد فرمایا:
(
ایّکم یوازرنی علیٰ ھٰذاالامر علیٰ ان یکون اخی و وصیّی و خلیفتی فیکم) یعنی تم میں سے کون اس کام میں میری مدد کرے گا تاکہ وہ میرا بھائی ، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ و جانشین ہو؟
حضرت علی (ع) کے سوا کسی نے پیغمبر (ص) کی بات کا جواب نہیں دیا ۔حضرت علی (ع) نے عرض کیا-:(
انا یا نبیّ اللہ اکون وزیرک علیہ) یعنی اے اللہ کے نبی میں اس کام میں آپ کا وزیر اور مددگار بنوں گا۔
پیغمبر اکرم نے انکی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:(
انّ ھٰذا اخی و وصیّی وخلیفتی فیکم)یعنی بہ تحقیق یہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا جانشین ہے۔(کامل ابن اثیر ،جلد۲ صفحہ۶۳، مطبوعہ بیروت /دارصادرم، مسند احمد بن حنبل،جلد ۱ صفحہ۱۱،شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۳ صفحہ۲۱۰ و دیگر مئولفین نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں یہی بات بیان کی ہے۔)
کیا وہ مسئلہ نہیں ہے جس کا اعلان پیغمبر اسلام (ص)اپنی عمر کے آخری حصّہ میںایک بار پھر کرنا چاہتے تھے اور اسکی تاکید کرنا چاہتے تھے؟صحیح بخاری کے بقول آنحضرت (ص)نے حکم ددیا:(
ایتونی اکتب کتابا لن تضلّوا بعدہ ابدا) یعنی کوئی چیز (کاغز و قلم ) لے آؤتاکہ تمہارے لئے ایسی چیز لکھ دوں جس کے بعد تم ہر گز گمراہ نہ ہوں گے۔اسی حدیث میں مذکور ہے کہ بعض حضرات نے اس سلسلے میں پیغمبر (ص) کی مخالفت کی یہاں تک کہ بہت ہی توہین آمیز بات کی اور رکاوٹ بن گئے۔(بخاری نے جلد ۵ صفحہ ۱۱ باب ”مرض النبی“ میں یہ حدیث بیان کی ہے۔اس سے زیادہ واضح صحیح مسلم ،جلد ۳ صفحہ ۱۲۵۹ میں مذکور ہے۔)
ہم ایک بار پھر اس بات کی تکرار کریں گے کہ یہاں ہمارا مقصد عقائد کو مختصر سے استدلال کے ساتھ بیان کرنا ہے اور زیادہ تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں ہے،وگرنہ گفتگو کا انداز کچھ اور ہوتا۔

۵۰۔اماموں کا تعین،رسول (ص) کے ذیعے۵۲۔ہر امام کی تاکید،اپنے بعد والے امام کے بارے میں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma