پیغمبر ِ خدا الیاس (ع) مشرکین کے مقابلے میں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 123 - 132۱۔ الیاس (ع) کون ہیں ؟

زیر نظر آیات میں گزشتہ ابنیاء میں سے ایک اور نبی کی سرگزشت بیان کی جارہی ہے یہ اس سُورہ میں آنے والی چھوتھی سرگزشت ہے . یہ حضرت الیاس کی ایک مختصر سی گذشت ہے . ارشاد ہوتاہے : الیاس خداکے رسولوں میں سے تھا (وَ إِنَّ إِلْیاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلینَ)۔
حضرت الیاس علیہ السلام ان کے نسب اوران کی زندگی کی خصوصیات کے بار ے میں انشاء اللہ کچھ گفتگو ان آ یات کے آخر میں نکات کے ضمن میں آ ئے گی ۔
اس کے بعد اساجمال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایاگیاہے : اس وقت کو یاد کرو جب اس نے اپنی قوم کوخبردار کیا او ر کہا : ” کیاتم تقویٰ اختیار نہیں کرتے “ (إِذْ قالَ لِقَوْمِہِ اٴَ لا تَتَّقُونَ ) ۔
تقوائے الہٰی . شرک و بُت پرستی سے پر ہیز ، ظلم و گناہ سے پرہیز اورانسانیت کے لیے تباہ کن سب باتوں سے پرہیز ۔
بعد والی آ یت میں اس مسئلہ کے بار ے میں ، اس سے بھی زیادہ صراحت کے ساتھ بات کی گئی ہے : کیاتم بعل بُت کو پکارتے ہو اور بہتر ین خالق کو چھوڑ رہے ہو (اٴَ تَدْعُونَ بَعْلاً وَ تَذَرُونَ اٴَحْسَنَ الْخالِقینَ)۔
اس سے واضح ہوجاتاہے کہ ان کاایک معروف بُت تھا ،جس کا نام ”بعل “ تھااوروہ اس کے سامنے سجدہ کیاکرتے تھے . حضر ت الیاس علیہ السلام نے انہیں اس قبیح عمل سے روکا اور عظیم آفرید گار ِ عالم اور توحید خالص کی طرف دعوت دی ۔
اسی وجہ سے ایک جماعت کانظر یہ ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام کی فعالیّت کا مرکز شامات کے شہروں میں سے شہر ” بعلبک “ تھا ( ۱) ۔
کیونکہ ” بعل “ اس مخصوص بُت کانام تھا اور” بک “ کامعنی ہے شہر . ان دونوں کی آپس میں تر کیب سے ” بعلبک “ ہوگیا .کہتے ہیں کہ سونے کاانتا بڑا بُت تھاکہ اس کاطول بیس ہاتھ تھا . اس کے چار چہرے تھے اوراس بُت کے چار سوسے زیاد ہ خادم تھے ( ۲) ۔
البتہ بعض کسی معیّن بُت کو ” بعل “ نہیں سمجھتے بلکہ بت کے مطلق معنی میں لیتے ہیں مگر بعض دوسر ے اسے ” رب اور معبود “ کے معنی میں سمجھتے ہیں ۔
راغب ” مفردات میں کہتاہے ” بعل “ اصل میں شوہر کے معنی میں ہے لیکن عرب اپنے ان معبودوں کو جن کے ذریعے وہ خدا کاتقرب چاہتے تھے ” بعل “ کانام دیتے تھے ۔
احسن الخا لقین . بہترین خالق کی تعبیر . حالانکہ عالم میں خال حقیقی خدا کے سوااور کوئی نہیں ہے . ظاہراً ان مصنو عات کیطرف اشارہ ہے جنہیں انسان مواد طبیعی سے شکل بدل کر بناتاہے اوراس لحاظ سے اس پرخال کااطلاق ہوتاہے ،اگر چہ انسان مجازی خالق ہے۔
بہرحال الیاس علیہ السلام نے اس بُت پرست قوم کی سخت مذمت کی اورمزید کہا:اس خدا کوچھوڑ رہے ہو جوتمہارااور تمہار ے گزشتہ آباؤ اجداد کاپروردگار ہے (اللَّہَ رَبَّکُمْ وَ رَبَّ آبائِکُمُ الْاٴَوَّلینَ)۔
تم سب کامالک و مربیّ وہی تھا اور ہے . جو نعمت بھی تمہارے پاس ہے وہ اسی کی طرف سے ہے اورہر مشکل کاحل اسی کے دستِ قُدرت سے ہوتاہے.اس کے علاوہ نہ تو خیر و برکت کاکوئی اورسرچشمہ موجود ہے اور نہ ہی شرو آفت کا کوئی اور دفع کرنے والا ہے۔
گو یا حضرت الیاس علیہ السلام کے زمانے کے بُت پرست بھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے زمانے میں کے بُت پرستوں کی طرح اپنے کام کی تو جہیہ کے لیے اپنے آباؤ اجداد اوربڑ وں کے طریقے ہی کاسہارا لیتے تھے کیونکہ حضرت الیاس علیہ السلام ان کے جواب میں کہتے ہیں : اللہ ہی تمہارااورتمہار ے آباؤ اجداد کارب ہے۔
” رب ‘ ‘ ( مالک و مربی ) کی تعبیر غور وفکر کے لیے بہترین محرک ہے کیونکہ انسانی زندگی میں اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ جانے کہ اسے کس نے پیدا کیاہے ، اور آج اس کامربی ، ولی نعمت اورصاحبِ اختیار کون ہے ؟
لیکن اس سرپھری اور خود پسند قوم نے خدا کے اس عظیم پیغمبرکے استد لالی پند ونصائح اورواضح ہدایت پرکان نہ دھر ے اور” اس کی تکذیب کے لیے اُٹھ کھڑ ے ہوئے “ ( فَکَذَّبُوہُ َ)۔ 
خدانے بھی ان کی سزا کو ایک مختصر سے جملے میں بیان کرتے ہوئے کہہ دیا : وہ بار گاہ ِ عدلِ الہٰی اوراس کی دوزخ کے عذاب میں حاضر کیے جائیں گے ( فَإِنَّہُمْ لَمُحْضَرُون )
اوراپنے قبیح اور بد اعمال کاسزاکا مزہ چکھیں گے ۔
لیکن ظاہرہوتاہے کہ چھوٹا سانیک ، پاک اورمخلص گروہ حضرت الیاس علیہ السلام پر ایمان لے آ یاتھا لہذ اا ن کا حق فراموش نہ کرتے ہوئے بلافاصلہ فرمایا گیاہے : مگر خدا کے مخلص بندے (إِلاَّ عِبادَ اللَّہِ الْمُخْلَصین) ( ۳) ۔
اس داستان کی آخر ی آ یات میں وہی چار مسائل جودوسر ے ابنیاء (موسٰی علیہ السلام و ہارون علیہ السلام اورابراہیم علیہ السلام و نوح علیہ السلام ) کے واقعات میں آ ئے تھے،ان کی اہمیّت کے پیش نظر پھر دہرائے گئے ہیں ۔
پہلے فر مایاگیاہے ؟ ہم نے الیاس کانیک نام بعد والی امتوں میں جاوداں کردیا (وَ تَرَکْنا عَلَیْہِ فِی الْآخِرین) ۔
دوسری امتیں ان بزرگ انبیاء کی انتہائی زحمتوں کو ،جو انہوں نے راہِ توحید کی پاسد اری اور تخمِ ایمان کی آ بیار ی کے لیے اٹھائی ہیں ، کبھی فراموش نہیں کریں گے اور جب تک دنیا قائم ہے ، ان مردانِ بزرگ اور فد ا کار وں کا مکتب اور یاد زندہ و جاوید رہے گی ۔
دوسرے مرحلے میں قرآن مزید کہتاہے : الیاسین پرسلام و درود ہو (سَلامٌ عَلی إِلْیاسینَ ) ۔
” الیاس “ کی بجائے ” الیاسین “ کی تعبیریاتواس بنا پر ہے کہ ” الیا سین “ لفظِ ” الیاس “ کی ایک لغت ہے اور دونوں ایک ہی معنی میں ہیں اور یاالیاس علیہ السلام اوران کے پیرو کاروں کی طرف اشار ہ ہے اور جمع کی شکل میں آ یا ہے ( ۴) ۔
تیسر ے مرحلے میں فر مایاگیاہے : ہم نیکو کار وں کواسی طرح سے بد لہ دیاکرتے ہیں ( إِنَّا کَذلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنینَ)۔
نیکی اوراحسان سے اس لفظ کاوسیع معنی مراد ہے ، جس میں دین اوراس کے تمام احکام پر عمل کرناشامل ہے . اس ک ساتھ ساتھ شرک ،انحراف ،گناہ اورفساد سے مقابلہ کرنابھی اس کے مفہوم میں شامل ہے۔
چوتھے مرحلے میں ان تمام باتوں کی اصل بنیاد یعنی ایمان کا ذکر ہے : یقینا وہ ( الیاس ) ہمار ے موٴمن بندوں میں سے ہے (إِنَّہُ مِنْ عِبادِنَا الْمُؤْمِنین) ۔
” ایمان “ و ” عبود یت “ ” احسان “ کاسر چشمہ ہے اوراحسان مخلصین ِ کی صف میں شامل ہونے اور خدا کے سلام کاحقدار ہونے کا سبب ہے۔
۱۔بعلبک موجودہ زمانے میں لبنان کاحِصّہ ہے اور شام کی سرحد پرواقع ہے۔
۲۔روح المعانی ، زیربحث آ یت کے ذیل میں ۔
۳۔ جوکچھ ہم نے بیان کیاہے اس کے مطابق یہ استثنا ء ” استثنا ء متصل “ ہے ” کذ بوہ “ کی واؤ سے یعنی تمام قوم نے تو تکذیب کی اور وہ سب عذابِ الہٰی میں گرفتار ہوئے سوائے خداکے مخلص بندوں کے ۔
۴۔پہلے الیاس منسوب ہوااور ” الیاسی “ ہواپھر جمع کی شکل میں آکر ” الیاسیسین “ ہوگیا اوراس کے بعد مخفف ہوکر ” الیاسین “ ہوگیا ہے)غور کیجیے گا ) ۔
سوره صافات / آیه 123 - 132۱۔ الیاس (ع) کون ہیں ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma