اس قوم کی تباہ سرزمین تمہارے سامنے ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 133 - 138سوره صافات / آیه 139 - 148

پانچو یں پیغمبر جن کااس سُورہ میں اور آ یات کے سلسلے میں نام آ یاہے اوران کی تاریخ کاایک مختصر حِصّہ ، تر بیتی اوراصلاحی درس کے طور پر بیان ہوا ہے وہ حضرت لُوط علیہ السلام ہیں. قرآن کی صراحت کے مطابق وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہمعصر تھے .وہ خدا کے عظیم پیغمبروں میں سے ہیں ( عنکبوت . ۲۶ ،ہود . ۷۴) ۔
حضرت لو ط علیہ السلام کانام قرآن میںبہت سی آیات میں آیا ہے اور بار ہاان کے اور ان کی قوم کے بار ے میں گفتگو کی گئی ہے۔
خاص طورپر اس منحرف قوم کاانجام ،ایک واضح اور روشن صورت میں بیان کیاگیاہے ( شعراء ۱۶۷ تا ۱۷۳ ،اور ہود ۷۰ تا ۸۳ ، نمل ۵۴ تا ۵۸ ،اور دوسر ے مقاما ت ) ۔
ارشاد ہوتاہے :لوط ہمارے رسولوں میں سے تھا (وَ إِنَّ لُوطاً لَمِنَ الْمُرْسَلینَ)۔
اس اجمال کو بیان کرنے کے بعد قرآن اجمال وتفصیل کی اپنی روش کے مطابق ،اس ماجرے کے ایک حِصّے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتاہے : وہ وقت یاد کرو جب ہم نے لُوط اوراس کے سار ے خاندان کونجا ت دی (إِذْ نَجَّیْناہُ وَ اٴَہْلَہُ اٴَجْمَعینَ ) ۔
سوائے اس کی بڑھیابیوی کے جواس قوم کے درمیان باقی رہ گئی (إِلاَّ عَجُوزاً فِی الْغابِرینَ) ( ۱) ۔
پھر باقی لوگوں کوہم نے تباہ و بر باد کردیا (ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرین) ۔
یہ مختصر جملے اس قوم کی عجیب تاریخ کی طرف اشار ے ہیں . اس کی تفصیل سُورہٴ ہود . شعراء اورعنکبوت میں گزر چُکی ہے۔
حضرت لُوط علیہ السلام نے تمام ابنیاء کی طرح سب سے پہلے اپنی دعوت توحید سے شروع کی . اس کے بعد ماحول کے مفاسد اورخرابیوں کے خلاف شدید جنگ میں مصروف ہوگئے ،خصوصاً وہ لوگ معروف اخلاقی انحراف یعنی ہم جنس بازی کاشکار تھے جس کی رسوائی تمام تو اریخ میں منعکس ہے۔
اس عظیم پیغمبرعلیہ السلام نے بہت سی سختیاں جھیلیں،خون جگر پیا اوران سے جتنا ہو سکا اس قبیح سیرت اورقبیح صورت منحرف قوم کی اصلاح اورانہیں شرمناک اعمال سے روکنے کی کوشش کی ، لیکن اس کاکوئی نتیجہ نہ نکلا اوراگرکچھ تھوڑ ے سے افراد ان پرایمان لائے بھی تو بہت جلد وہ اس گندے ماحول سے نجات پاگئے ۔
آ خر کار حضرت لُوط علیہ السلام ان سے ناامید ہوگئے اور دعاکرنے کے لیے تیار ہوگئے . انہوں نے خداسے اپنی اوراپنے خاندان کی نجات کے لیے درخواست کی ، خدانے ان کی دعا کوقبول فر مایا اوراس چھوٹے سے گروہ کو نجات بخشی ،سوائے ان کی بیوی کے ،وہی بڑھیا جونہ صرف آپ کی تعلیمات کی پیروی نہیں کرتی تھی بلکہ بعض اوقات آپ کے دشمنوں کی مد د بھی کیا کرتی تھی ۔
خدانے بھی اس قوم پرنہایت سخت عذاب نازل کرنے کا ارادہ کرلیا . سب سے پہلے ان کے شہروں کو تہ و بالا کیا .پھر مسلسل اور پے درپے پتھر وں کی بارش ان پر برسائی . یہاں تک کہ سب کے سب نابود ہوگئے اوران کے جسموں کا بھی نام ونشان باقی نہ رہا ۔
چونکہ یہ سب ذکر غافل اور مغر ور لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے ایک مقدمہ اور تمہیدکے طور پر ہے لہذ ااس گفتگو کے آخر میں ارشاد ہوتاہے:تم ہمیشہ صبح کے وقت ان کے شہروں کے ویر انوں کے قریب سے گز رتے ہو (وَ إِنَّکُمْ لَتَمُرُّونَ عَلَیْہِمْ مُصْبِحینَ ) ۔
اوررات کوبھی وہاں سے گزرتے ہو ، کیاتم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ (وَ بِاللَّیْلِ اٴَ فَلا تَعْقِلُون) ۔
یہ تعبیر اس وجہ سے بیان ہوئی ہے کیونکہ قومِ لُوط کے شہر حجا ز کے لوگوں کے قافلوں کوشام کی طرف راستے میں پڑ تے تھے اور وہ اپنے دنوں اور راتوں کے سفر میں ان کے قریب سے گز رتے تھے . اگر وہ دل وجان کے کان رکھتے تو اس گنہ گا ر تباہ شدہ قوم کی دلخراش اور جانکاہ آ واز سنتے ،کیونکہ ان کے شہروں کے ویرانے اپنی زبانِ بے زبانی سے تمام گزرنے والوں کودرسِ عبرت دیتے ہیں اوران جیسے حوادث کے چنگل میں گر فتار ہونے سے ڈ راتے ہیں ۔
مااکثر العبر واقل الاعتبار ( ۲) ۔
عبرت کے درس تو بہت ہیں لیکن عبرت حاصل کرنے والے تھوڑ ے ہیں ۔
اسی معنی ومفہوم کی نظیر سورہٴ حجر کی آ یہ ۷۶ میں قوم ِ لوط کی داستان کے بیان کے بعد آ ئی ہے :
وانّھا لبسبیل مقیم
یہ آثار پاس سے گذ رنے والوں کے راستہ میں پڑتے ہیں ۔
ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام سے اس جملے کی ایک اورطرح سے تفسیر کی گئی ہے . ایک صحابی نے ” وانّکم لتمر ون علیھم مصبحین و باللیل افلا تعقلون “ کی آ یا ت کی تفسیر کے بار ے میں آپ علیہ السلام سے سوال کیاتو فر مایا :
تمر ون علیھم فی القراٰن اذ اقراٴتم فیالقراٰن فاقرء وا ماقص اللہ علیکم من خیرھم
تم قرآن میں جب قرآن کی آ یات کی تلاوت کرتے ہو تو ان کے پاس سے گز رتے ہو ،قرآن ان اخبار کو جو خدا نے بیان کی ہیں تمہارے لیے واضح کرتاہے ( ۳) ۔
ممکن ہے یہ تفسیر آ یت کے دوسر ے معنی اوراس کے بطون کی طرف اشارہ ہو. بہرحال دونوں تفسیروں کے جمع ہونے میں بھی آ ئی امر مانع نہیں ہے،کیونکہ قوم لوط کے آثار بھی خارج میں انکی آنکھو ں کے سامنے موجود تھے اورقرآن مجید میں ان کے اخبار بھی سامنے ہیں ۔
۱۔ ” غابر“ جیساکہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں ” غبور “ کے مادہ سے ( ” ھبور “ کے وزن پر ) کسی چیز کے باقی ماندہ حِصّہ کے معنی میں ہے او ر جس وقت کوئی جمعیت کسی جگہ سے حرکت کرے اور کوئی اس جگہ سے رہ جائے تو اس کو ” غابر“ کہتے ہیں . اسی بناپر باقی ماندہ خاک کو”غبار “کہتے ہیں اور پستان میں باقی رہ جانے والے دودھ کو ”غیرة “بروزن ” لقمة “کہتے ہیں ۔
۲۔نہج البلاغہ کلمات قصار ،کلمہ ۲۹۷۔
۳۔یہ روایترروضہ کافی سے نو رالثقلین جلد ۴ ص ۳۲ ۴ پرنقل کی گئی ہے۔
سوره صافات / آیه 133 - 138سوره صافات / آیه 139 - 148
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma