اللہ کا گھر وہ کامیا ب ہے۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
ّسوره صافات / آیه 171 - 177سوره صافات / آیه 178 - 182

عظیم انبیاء کی جد و جہد اوربے ایمان مشرکین کی کار شکینوں کے سلسلے میں ان گوناگوں مباحث کے بعد ، جواس سورہ کی آ یات میں بیان ہوئی ہیں.ان جبکہ ہم اس سورہ کی آخر ی آ یات کے قریب ہورہے ہیں تواس سے مربوط اہم ترین مسئلہ بیان کیا جارہاہے اور خاتمہ بالخیر کواعلیٰ ترین صورت میں پیش کیاجارہا ہے . اور وہ خدا کے لشکر کی شیطان اوردشمنان ِ حق کے لشکر پر مکمل فتح کی خبر ہے تاکہ وہ تھوڑے سے مومنین جو ان آیات کے نزول کے وقت مکہ میں ( دشمنان ِ اسلام کی سختی اور دباؤ کاشکار تھے اوراسی طرح ہرعصر اور ہر زمانہ کے تمام محر و م مومنین ،خدا کے اس عظیم وعدے سے مطمئن ہوجائیں اور یا س و ناامید ی کاگر د و غبار اپنے قلب و روح سے دھو ڈالیں اور باطل کے لشکر کے ساتھ مقابلہ جاری رکھنے کے لیے آمادہ رہیں ۔
ارشاد ہوتاہے :ہمارے مرسل بندوں کے ساتھ ہماراقطعی وعدہ پہلے سے مسلّم ہو چکا ہے (وَ لَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنا لِعِبادِنَا الْمُرْسَلینَ)۔
کہ ان کی مدد ونصر ت کی جائے گی (إِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنْصُورُونَ ) ۔
اور ہمار ے لشکر تما م میدانوں میں کامیاب ہوں گے (وَ إِنَّ جُنْدَنا لَہُمُ الْغالِبُونَ)۔
کتنی صریح اور منہ بو لتی عبارت ہے اور کتنا روح پر و ر اور امید بخش وعدہ ہے۔
باں ! حق کے لشکر کی باطل پر کامیابی اوراللہ کے لشکر کاغلبہ اورمرسل اور مخلص بندوں کے لیے خدا کی مدد ونُصر ت ،اس کے مسلّم اور یقینی وعدوں اورقطعی سنتوں میں سے ہے ، جو ان آ یات میں ” سبقت کلمتنا “ ( ہمارا یہ وعدہ اور یہ سنت ابتدا سے تھی ) کے انداز میں پیش ہوئی ہے۔
قرآن مجید کی دوسری بہت سی آیات میں بھی ان مطالب کی نظیر موجود ہے . سورہٴ روم کی آ یہ ۴۷ میں بیان ہوا ہے۔
وَ کانَ حَقًّا عَلَیْنا نَصْرُ الْمُؤْمِنین
موٴ منین کی مدد کرناایساحق ہے جوہم پر مسلّم ہے۔
نیز سورہٴ حج کی آ یہ ۴۰ میں بیان ہواہے۔
وَ لَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہ
خداہر اس شخص کی ضر ور مد د کرے گا جو اس کے دین و آئین کے لیے اُٹھے گا ۔
اورسورہ ٴ موٴ من کی آ یہ ۵۱مین یہ بیان ہو اہے :
إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذینَ آمَنُوا فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ یَوْمَ یَقُومُ الْاٴَشْہاد
ہم اپنے رسولوں کی اورصاحبِ ایمان کی،دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور ( قیامت کے دن ) جب حق کی گواہی دینے والے قیام کریں گے اس دن بھی مدد ونصرت کریں گے ۔
سورہ ٴ مجادلہ کی آ یہ ۲۱ میں تو پوری قاطعیت اوردوٹوک فیصلے کے طورپر اس غلبے اور کامیابی کے بار ے میں ایک قطعی سنت کے طورپر گفتگو کی گئی ہے۔
کتب اللہ لاغلبنّ اناورسلی
خدانے مقرر کردیا ہے (اور لکھ دیاہے ) کہ میں اور میرے رسول قطعی طورپر غالب ہوکے رہیں گے ۔
یہ بات واضح ہے کہ وہ خدا جوہر چیز پر قادر ہے اور جس کے وعد وں میں نہ تخلّف تھا اور نہ ہے ،وہ اپنے اس عظیم وعدے کوعملی جامہ پہنا سکتاہے اور عالمِ ہستی کی دوسری تخلف ناپذ یر سنتوں کی طرح مردانِ حق کو بے کم و کاست کامیاب کر سکتاہے۔
یہ خدا ئی وعدہ ان اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے راہ ِ حق کے راہ و مطمئن اور دل گرم رہتے ہیں . اوراس سے روح ِ تاز ہ حاصل کر تے ہیں ،جس وقت تھک جاتے ہیں تواس کے ذ ریعے تازہ دم ہوجاتے ہیں اور نیاخون ان کی رگوں میں جاری ہونے لگتاہے۔

ایک اہم سوال

یہاں ایک سوال سامنے آ تاہے اور و ہ یہ ہے کہ اگرخدا کی مشیت و ارادہ میں پیغمبروں کی مددو نصر ت اور موٴ منین کی کامیابی مقرر ہوچکی ہے تو ہم بشر کی بھرپور تاریخ میں کئی پیغمبروں کو بشارت پرفائز ہوتے ہوئے مشاہدہ کیوں کرتے ہیں اور موٴ منین کے کئی گروہ شکست سے دوچار کیوں ہوئے ؟ اگر چہ تخلّف ناپذ یر سنتِ الہٰی ہے توپھر یہ استثنائات کس بنا پر ہیں ؟


ہمارا جواب


اوّلا :کامیابی ایک وسیع معنی رکھتی ہے اورہمیشہ دشمن پر ظاہر ی اور جسمانی غلبہ کے معنی میں نہیں ہوتی. بعض اوقات مکتب اورنظریے کی کامیابی کوبھی کامیابی ہی کہتے ہیں اوراہم ترین کامیابی یہی ہے . فرض کریں کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کسی جنگ میںشہید ہوجاتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان کادین سار ی دنیا میں پھیل گیاہے توکیایہ ممکن ہے کہ ہم اس شہادت کوشکست سے تعبیر کریں ؟
اس سے بھی واضح روشن مثال یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے انصار نے کربلا کے میدان میں واقعاًشریبِ شہادت نوش کیا، لیکن ان کاہدف و مقصد یہ تھا کہ بنی امیہ کے مکروہ چہر ے کے بے نقاب کردیں کہ جوظا ہر میں تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی خلافت کے مدعی تھے لیکن حقیقت میں اسلامی معاشرے کوزمانہٴ جاہلیّت کی طرف واپس لوٹانا چاہتے تھے اور وہ اس عظیم ہدف و مقصد میں کامیاب ہو گئے .آپ نے مسلمانوں کواس خطر ے سے آگاہ کردیااور اسلام کومٹنے سے بچالیا .تو کیا یہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ کربلا میں مغلوب ہوگئے ؟
اہم بات یہ ہے کہ انبیاء اور جنودِ الہٰی یعنی مو منین،حق کے دشمنوں کی تمام متوا تر ومنظم کوششوں کے باوجود ، اس بات پر قادر ہوسکے کہ اپنے اہداف و مقاصد کو دنیامیں آ گے بڑھائیں اور زیادہ سے زیادہ پیرو کار پیدا کرسکیں اوراپنے مکتبی راستے کو دوام دے سکیں اوران تمام طوفانوں کے مقابلہ میں ڈٹ جائیں. یہاں تک کہ موجودہ زمانہ میں دنیا کے اکثر لوگوں کے افکار کواپنی طرف متوجہ کر لیں ۔
کامیابی کی ایک اورقسم بھی ہے جودشمن کے مقابلے میں صدیوں کے دور ان میں تدریجی طور پر حاصل ہوتی ہے . کبھی ایک نسل میدان میں آ تی ہے اورکامیاب نہیں ہوتی لیکن آ ئندہ آنے والی نسلیں ان کے کام کوآگے بڑھا تی ہیں اور کامیابی سے ہم کنار ہوجاتی ہیں ( مثلاً دوسوسال کے بعد لشکر ِالسلام کیصلیبیوں کے لشکر پرکامیابی ) یہ کامیابی بھی سب کی کامیابی سمجھی جائے گی ۔
ثانیاً: اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ خدا کاموٴ منین کے لیے غلبہ کاوعدہ ایک مشرو ط وعدہ ہے نہ کہ مطلق ، اوراس حقیقت کی طرف متوجہّ نہ کرنے سے ہی بہت سے اشتبا ہات پیدا ہوتے ہیں ۔
کیونکہ زیر بحث آیات میں لفظ ” عبادنا “ (ہمار ے بند ے ) اور ” جندنا“ (ہمارالشکر ) یااسی قسم کی دوسری تعبیریں جو اس سلسلے میں قرآن کی دوسری آ یات میں آ ئی ہیں مثلاً” حز ب اللہ “ ” والذ ین جاھد وافینا “ و لینصرنّ اللہ من ینصرہ “ اوراسی قسم کی دوسری تعبیریں سب کی سب کامیابی کی شرائط کے لیے ایک واضح دلیل ہیں ۔
ہم یہ چاہتے ہیں کہ نہ تم ہم مجاہد موٴ من بنیں اورنہ ہی مخلص لشکر ، اوراس حال میں حق و عدالت کے دشمنو ں پر غالب آ جائیں ۔
ہم چاہتے ہیں کہ خدا کی راہ میں شیطانی افکا ر اور پر و گراموں کے ساتھ پیش رفت کریں . اس کے بعد تعجّب کرتے ہیں کہ ہم دشمنوں سے مغلوب کیوں ہوگئے . تو کیاہم نے اپنے وعدوں پرعمل کیا ہے کہ خدا سے اس کے وعد وں کے ایفا کامطالبہ کررہے ہیں ؟
جنگ ِ اُحد میں پیغمبرالسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے مسلمانوں سے کامیابی کاوعدہ کیا تھا اورجنگ کے پہلے مرحلے میں کامیاب ہوئے بھی لیکن ایک گروہ جنگ کامالِ غنیمت جمع کرنے ، تفرقہ ونفاق پیدا کرنے اور فرمانِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوچھوڑ دینے کی فکر میں پڑ گیا اور جنگ کے آغاز میں جو کامیابی حاصل ہوئی تھی ، اس کی اور درہ ٴ احد کی حفاظت میں کوتاہی کی اور یہی امر اس جنگ میں انکی شکست کاسبب بن گیا ۔
ایسامعلوم ہوتا ہے کہ وہ گروہ جو اپنے آپ کو کامیابی کا طلب گار سمجھتا تھا پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی خدمت میں آیا اور مخصوص لب ولہجہ میں عرض کی کہ کامیابی کا وہ وعدہ کیاہوا ؟
قرآن نے انہیں بہت ہی عمدہ جواب دیاجو ہمار ی گفتگو کاگواہ ہے .فر مایا :
وَ لَقَدْ صَدَقَکُمُ اللَّہُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَہُمْ بِإِذْنِہِ حَتَّی إِذا فَشِلْتُمْ وَ تَنازَعْتُمْ فِی الْاٴَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِنْ بَعْدِ ما اٴَراکُمْ ما تُحِبُّونَ مِنْکُمْ مَنْ یُریدُ الدُّنْیا وَ مِنْکُمْ مَنْ یُریدُ الْآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ وَ لَقَدْ عَفا عَنْکُمْ وَ اللَّہُ ذُو فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنینَ
خدا نے (اُحد میں دشمن پر کامیابی کا ) تم سے کیا ہوا وعدہ پوراکر دیا .اس وقت ( جب ابتداء جنگ میں) تم دشمنوں کو اس کے حکم سے قتل کررہے تھے اور یہ کامیابی اسی طرح بر قرار رہی ، یہاں تک کہ تمہی سُست پڑگئے اوراپنے کام میں ایک دوسرے سے جھگڑ نے لگے . اور جب ( تم نے اپنے مطلوب و پالیا اور ) جوکچھ تم پسند کرتے تھے وہ خدانے تمہیں دکھادیا ، توتم نے نا فرما نی کی . تم میں سے بعض تو دنیا کے طالب تھے اور بعض آخر ت کے چاہنے والے تھے( اس کے باوجود اس نے تمہیں مکمل شکست سے نجات دی ) اورانہیں تم سے منصرف کردیاتاکہ تمہاری آ زمائش کرے اور تمہیں اپنے عفوسے نواز ا اور خد موٴ منین کے لیے صاحب ِ فضل وبخشش ہے۔ ( آل ِ عمران . ۱۵۲)
” فشلتم “ ( تم گمز ور پڑ گئے ).
” تنازعتم “ ( ایک دوسرے سے جھگڑ نے اور نزاع واختلاف کرنے لگے )
” عصیتم “ ( تم نے نافر مانی کی )
یہ ایسی تعبیریں ہیں جو اس با ت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ انہوں نے خدا کی مدد اوردشمن پر کامیاب کی شرائط کوچھوڑ دیاتھا . اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل نہ کرسکے ۔
ہاں ! خدانے ہر گز یہ وعدہ نہیں کیاکہ جس شخص نے اپنانام مسلمان اورمجاہد ِ اسلام رکھ لیااور ” جند اللہ“ اور ” حزب اللہ “ کا دم بھرنے لگا وہ ہرمیدن میں دشمن پرغلبہ حاصل کرلے گا.بلکہ یہ خدائی وعدہ توان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جودل وجان سے رضائے خدا کے خواہاں ہیں اور عملی لحاظ سے اس کے فرمان پرچلتے ہیں اور تقویٰ و امانت کونہیں بھولتے ۔
اس سوال و جواب کی نظیر،ہم نے ” دعا“ اور ” خدا “ کے وعدہ ” اجابت “ کے بار ے میں بھی بیان کی ہے ( ۱) ۔
اس کے بعد ان آ یات کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور مومنین کی دلجوئی اور کامیابی کا تاکید کے لیے بھی اور بے خبر مشر کین کی تنبیہ وتہدید کے لیے بھی فر مایاگیا ہے : ان سے منہ پھیر لے ، اورانہیں ایک معیّن وقت تک کے لیے ان کی حالت پر چھوڑ دے (فَتَوَلَّ عَنْہُمْ حَتَّی حینٍ ) ۔
یہ ایک پُرمعنی اور ہول انگیز تہدید ہے جس کاسر چشمہ مکمل کامیابی کااطمینان ہے.خصوصاً” حتٰی حین“ ( ایک مدّت تک ) کی تعبیر اجمالی اور سربستہ صورت میں اداہوئی ہے . لیکن کتنی مدّت تک ؟ ہجر ت کے زمانے تک ؟ جنگ ِ بد رکے موقع تک ؟فتح مکہ تک ؟ یااس زمانے تک کہ ان دل کے اندھوں کے خلاف ،مسلمانوں کے لیے مکمل اور عمومی قیام کے حالات فراہم ہوں.یہ بات دقیقا ًمعلوم نہیں ہے۔
اس تعبیر کی نظیر قرآن کی دوسر ی آ یات میں بھی نظر آتی ہے ، کبھی کہتاہے :
فَاٴَعْرِضْ عَنْہُمْ وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ
ان سے رُخ پھیر لے اور خداپر توکل کر۔ (نساء . ۸۱)
دوسر ی جگہ کہتاہے :
قُلِ اللَّہُ ثُمَّ ذَرْہُمْ فی خَوْضِہِمْ یَلْعَبُون
کہو اللہ،پھر انہیں چھوڑ دو کہ اپنے جھوٹ کے ساتھ کھیلتے رہیں۔ (انعام . ۹۱)
اس کے بعد اس جملے کی ایک دوسری تہدید کے ساتھ تاکید کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے : ان کی حالت کی طرف دیکھ ( ن کی ہٹ دھرمیاں،ان کے جھوٹ،ان کی خرافات اور سر کشیاں کتنی بے کار اور فضول ہیں ) لیکن وہ جلدہی اپنے کار ِ بد کا انجام دیکھ لیں گے (وَ اٴَبْصِرْہُمْ فَسَوْفَ یُبْصِرُونَ)۔
وہ بہت جلد اسی دنیامیں تیری اور مومنین کی کامیابی اوراپنی ذلّت آمیز شکست اور دوسرے جہان میں خدا کاعذاب دیکھیں گے ۔
اور چونکہ یہ بے شرم سرکش یہی کہتے تھے ، کہ عذابِ الہٰی کاوہ وعدہ کیاہوا ، اوراگر توسچ کہتاہے تو پھر دیر کیوں کررہا ہے ؟تو قرآن تہدید آمیز لہجے میں ان کے جواب میں کہتاہے : کیایہ ہمارے عذاب کے لیے جلدی کررہے ہیں ؟کبھی کہتے ہیں ” متٰی ھٰذ االوعد “ ( یہ وعدہ الہٰی کب پورا ہوگا ) اور کبھی یہ کہتے ہیں ” متٰی ھٰذ االفعح “ ( یہ کامیابی کب حاصل ہوگی ) (اٴَفَبِعَذابِنا یَسْتَعْجِلُونَ)۔
لیکن جب ہمارا عذاب ان کے گھر کے صحن میں اُتر ے گا اوران کے دن تیر ہ و تاریک ہوجائیں گے ، تو اس دن انہیں سمجھ آ ئے گی کہ جنہیں ڈ رایاگیاتھا ان کی صبح کتنی بُری اورخطرناک ہے (فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِہِمْ فَساء َ صَباحُ الْمُنْذَرینَ ) (۲) ۔
” ساحة “ (گھر کاصحن او ر گھروں کے اند ر کی فضا ) کی تعبیر اس لیے ہے تاکہ نزولِ عذاب کو ان کی زندگی کے اندر مجسم کردیاجائے اور ان کے آرام وسکون کے مرکز کے وحشت و اضطراب کے مر کز میں بدل جانے کی نشان دہی کردی جائے ۔
” صَباحُ الْمُنْذَرینَ “ ( ڈ رائے گئے لوگوں کی صبح ) کی تعبیر ممکن ہے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اس ہٹ دھرم اور ستم گرقوم پر خداکا عذاب بہت سی گزشتہ اقوام کی طرح صبح کے وقت نازل ہوگا ۔
یایہ اس معنی میں ہے کہ سارے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی صبح خیر و خوبی کے ساتھ شروع ہو ، لیکن ان کے سامنے بُری اور تیر ہ تار صُبح ہے۔
یااس کامطلب یہ ہے کہ صبح بیدار ی کاوقت ہوتاہے یہ بھی اس وقت بیدار ہوں گے کہ جب نجات کی کوئی راہ باقی نہیں رہے گی اورپانی سرسے اونچا ہوگیا ہوگا۔
۱۔تفسیر نمونہ جلد اول سورہ بقرہ آ یہ ۱۸۶ کے ذیل میں رجوع کریں ۔
۲۔ اس جملے میں کچھ محذو ف ہے اور اس کی تقد یر اس طرح ہے ” فساد الصباح صباح المذ رین “ ( منذ رین کی صبح بُر ی صبح ہے ) ۔
ّسوره صافات / آیه 171 - 177سوره صافات / آیه 178 - 182
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma