جھوٹے دعوے ۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 161 - 170ّسوره صافات / آیه 171 - 177

گذ شتہ آ یات میں مشرکین کے مختلف معبودوں کے بار ے میں گفتگو تھی،زیر بحث آیات میں بھی وہی مسئلہ جاری ہے اور اس سلسلے میں چند آ یات میں ایک ایک مطلب بیان ہو رہاہے۔
ارشاد ہوتاہے کہ تم بُت پرستوں کے وسوسے کا نیک اورپاک لوگوں کے دلوں پرکوئی اثر نہیں ہوتا ، صرف آ لودہ دل اور تمہار ی برائی کی طرف مائل ہونے والی دوزخی روحین ہی ان وسوسوں کوقبول کرتی ہیں . فر مایا گیاہے : تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو (فَإِنَّکُمْ وَ ما تَعْبُدُونَ ) ۔
” تم ہرگز کسی کو ( اس سے ) فریب نہیں دے سکتے،اور فتنہ وفساد کے ذ ریعے خدا سے منحرف نہیں کرسکتے (ما اٴَنْتُمْ عَلَیْہِ بِفاتِنینَ) ( ۱) ۔
مسلک جبرکے طرفدار وں نے ان آ یات سے جوکچھ سمجھاہے اس کے برخلاف یہ آ یات اس مکتب کے برخلاف ایک دلیل ہے اوراس حقیقت کی طرف ایک اشارہ ہے کہ کوئی بھی شخص انحراف کے مقابلے میں اپنے آپ کو معذور نہیں جان سکتا اور یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ مجھے دھوکہ دے کر بُت پرستی کی طرف لے جا یا گیاہے . قرآن کہتاہے : تم بُت پرست لوگوں کو ” فتنہ اور فریب دینے کی طاقت نہیں رکھتے،مگر انہی کو جو خود اپنے ارادے کے ساتھ دوزخ کی راہ اختیار کرلیں۔
اس بات کا شاہد ” صال الجحیم“ کی تعبیر ہے ، کیونکہ دراصل ”صالی “ اسم ِ فاعل کی شکل میں تھا اورعام طورپر جسوت اسم ِ فاعل کے صیغے کوکسی موجود عال کے لیے استعمال کرتے ہیں تو اس کامفہوم کسی کام کو ارا د ہ و اختیار سے انجام دینا ہے . مثلاً” قاتل “ و ” جالس “ و ” ضارب“ اس بنا پر ” صالح الجحیم “ یعنی وہ شخص جو اپنے آپ کوجہنم کی آگ میں جلانے کے لیے آمادہ ہو اوراس طرح سے تمام انحراف کرنے والوں کے لیے عذر کی راہ بند ہوجاتی ہے۔
بعض مشہور مفسّرین کے بار ے میں تعجّب ہے کہ انہوں نے آ یہ کااس طرح معنی کیاہے :تم کسی کودھو کہ اور فریب نہیں دے سکتے سوائے ان لوگوں کے جن کاجہنمی ہونامقدّر ہوچکاہے۔
واقعاً اگر آیت کامعنی یہ ہے توپھر پیغمبر کس لیے آتے ہیں ؟ آسمانی کتابیں کس مقصد کے لیے نازل ہوئی ہیں ؟ حساب و کتاب اورقرآن کی آیات میں بُت پرستوں کو لعنت و ملامت کاکیامفہوم ہے ؟ اورخدا کی عدالت کہاں جائے گی ؟
ہاں ! مکتب ِ جبر کااعتراف کرنے سے اس حقیقت کوقبول کرلینا چاہیے کہ یہ مکتب ابنیاء کی اصالت کوکلی طور پر مخدوش کردیتا ہے ، اس کے تمام مفاہیم کومسخ کردیتاہے اور تمام الہٰی اورانسانی قد روں کو برباد کردیتاہے۔
اس نکتے کی طرف توجہ ضرو ری ہے کہ ” صالی “ ” صلی “ ( بروزن ”سرد“ ) کے مادہ سے آگ جلانے ، آگ میں داخل ہونے یاآگ میں بھونے جانے کے معنی میں ہے اور ” فاتن “ ” فتنہ “ کے مادہ سے ” اسم فاعل “ فتنہ گر اور گمراہ کرنے والے کے معنی میں ہے۔
یہ تین آ یات جوبُت پرستوں کی فتنہ جوئی اور گمراہ کن حرکتوں کے مقابلہ میں انسانوں کے مسئلہ اختیار کو واضح کرتی ہیں . ان کے بعدتین آیات میں فرشتوں کے بلند و بالا مقام کے بار ے میں گفتگو کی گئی ہے . وہی فرشتے جنہیں بُت پرست خداکی بیٹیاں خیال کرتے ہیں اور قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ گفتگو کوخود انہی کے زبان سے بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتاہے :ہم میں سے ہرایک کاایک معلوم مقام ہے (وَ ما مِنَّا إِلاَّ لَہُ مَقامٌ مَعْلُومٌ ) (۲) ۔
اور ہم سب فرمان ِ خدا کی اطاعت کے لےے صف بستہ کھڑ ے ہیں اور اس کے حکم کی تعمیل کے لیے تیار رہتے ہیں (وَ إِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ ) ۔
اورہم سب کے سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اوراس کو ان چیزوں سے جو اس کی پاک ذات کے لائق نہیں ہیں . منزہ شمار کرتے ہیں (وَ إِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُون) ۔
ہاں ! ہم تو وہ بندے ہیں جودل و جان کو ہتھیلی پر ر کھے ہوئے ہیں . ہماری آنکھیں اور کان اس کے فر مان پر لگے ہوئے ہیں . ہم کیاں اور خدا کا بیٹا ہوناکہاں ؟ ہم اسے ان قبیح او ر جھوٹی نسبتوں سے پاک اور منزّہ سمجھتے ہیں اور ہم مشرکین کے ان خرافات اور اوہام سے متنفّر اوربیزا ر ہیں ۔
حقیقت میں یہ تین آ یات فرشتوں کی صفات کے تین حِصوّں کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔
پہلایہ کہ ان میں سے ہر ایک،ایک مرتبہ ومنزلت رکھتاہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتا۔
دوسرایہ کہ فرشتے عرصہ ٴ آفرینش میں اور وسیع عالمِ ہستی میں اوا مرِ خدا وندی کے اجر اء کے سلسلے میں ہمیشہ فرمان ِ خداکی اطاعت کے لیے آ مادہ وتیار رہتے ہیں.یہ بات اس چیز سے مشابہ ہے جوسورہٴ انبیاء کی آ ۲۶ میں آ ئی ہے کہ :
بَلْ عِبادٌ مُکْرَمُون لا یَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَ ہُمْ بِاٴَمْرِہِ یَعْمَلُونَ
وہ خدا کے اچھے بند ے ہیں جوبات کرنے میں اس سے سبقت نہیں کرتے اوراس کے فرمان پرعمل کرتے ہیں ۔
تیسر ا یہ کہ وہ ہمیشہ خداکی تسبیح کرتے ہیں اور اس کو اس چیز سے جو اس کے مقام کے لائق نہیں ہے . منزہ شمارکر تے ہیں ۔
چونکہ ان دونوں جملوں ( إِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ وَ إِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُون) کاعربی ادب کے لحاظ سے مفہوم ” حصر “ ہے،لہذ ا بعض مفسّرین نے اس سے یہ مطلب لیاہے کہ فرشتے یہ کہناچاہتے ہیں کہ صرف ہم خدا کے حکم کے مطیع ہیں اوراس کی حقیقی تسبیح کرنے والے بھی ہم ہی ہیں.ہم گو یااس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بنی آدم کی اطاعت وتسبیح فرشتوں کے کام کے مقابلے میں کوئی اہم چیز نہیں ہے۔
قابلِ توجہ ّ بات یہ ہے کہ مفسّرین نے ان آ یات کے ذیل میں پیغمبر گرامی اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فر مایا :
مافی السما وات موضع شبر الاوعلیہ ملک یصلی ویسبح
تمام آسمانوں میں ایک بالشت بھر جگہ بھی ایسی نہیں ہے جہاں پر کوئی فرشتہ نماز اورخدا کی تسبیح میں مصر وف نہ ہو ( ۳) ۔
ایک دوسر ی روایت میں یہی معنی ایک دوسری صورت میں بیان ہوا ہے۔
مافی السماء موضع قدم الاعلیہ ملک ساجد او قائم
تمام آسمانوں میں ایک قدم رکھنے کی جگہ بھی ایسی نہیں ہے کہ جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ حالتِ سجد ہ یا قیام میں نہ ہے ( ۴) ۔
ایک اورروایت میں پیغمبر گرامی اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے منقول ہے کہ آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ایک دن اپنے اصحاب سے جوآپکے گرد بیٹھے ہوئے تھے،فر مایا :
اطت السماء وحق لھاان تاٴط ! لیس فیھاموضع قدم الاعلیہ علک راکع او ساجد ،ثم قراٴ و انا لنحن الصا فون وانا لنحن لمسبّحون
آسمان نے ( اپنے بارکی سنگین سے ) فر یاد کی ، اورو ہ حق رکھتاہے کہ نالہ وفریاد کرے کیونکہ اس میں ایک قدم رکھنے کی بھی جگہ ایسی نہیںجس پرکوئی نہ کوئی فرشتہ حالت ِ رکوع میں یاحالتِ سجود میں نہ ہو. پھرآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ان آ یات کی تلاوت فرمائی ---” و إِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ وَ إِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُون “ (۵) ۔
یہ گو ناگوں تعبیریں اس بات کی طرف ایک لطیف کنایہ ہیں کہ عالم ہستی پر وردگار کے فرماں برداروں اوراس کی تسبیح کرنے والوں سے معمور ہے۔
اس کے بعد زیربحث آخری چار آیتوں میں اسی بُت پرستی سے مربُوط اورکچھ دوسرے مطالب کے لیے ان مشرکین کے ایک عذر لنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن جواب دیتاہے اور فرماتاہے : وہ ہمیشہ کہتے تھے (وَ إِنْ کانُوا لَیَقُولُون) (۶) ۔
اگر ہمار ے پاس پہلے لوگوں کی کتابوں میں سے کوئی کتاب ہوتی (لَوْ اٴَنَّ عِنْدَنا ذِکْراً مِنَ الْاٴَوَّلین) ۔
توہم خدا کے مخلص بندوں میں سے ہوتے (لَکُنَّا عِبادَ اللَّہِ الْمُخْلَصینَ)۔
ان سب مخلص بندوں اور جنہیں خدانے خالص کیا ہے،ان کے بار ے میں گفتگو نہ کر . نوح علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام،اور موسٰی علیہ السلام جیسے بزرگ پیغمبر وں کو ہمارے سامنے پیش نہ کر . اگر ہمارے اوپر بھی لطفِ خداہوتا اورہم پربھی کوئی آسمانی کتاب نازل ہوئی ہو تی،تو ہم بھی ان ہی مخلص بندوں کے ز مرے میں ہوتے ۔
یہ بعینہ پیچھے رہ جانے والے اور فیل ہوجانے والے طالب علموں کی مانند گفتگو ہے،جو اپنی سُستی پر پر دہ ڈالنے کے لیے کہاکرتے ہیں کہ اگر ہمارا بھی اچھا استاد ہوتاتو ہم بھی اول آنے والے طالب علموں میں سے ہوتے ۔
بعد والی آیت کہتی ہے کہ ان کی یہ آ رزو بھی اب عملی امہ پہن چکی ہے اور خدا کی عظیم ترین آسمانی کتاب قرآن مجید ان کے لیے نازل ہوئی ہے،لیکن یہ غلط دعوے کرنے والے جھوٹے اس سے کافر ہوگئے ہیں اوراس کی مخالفت انکار اور دشمنی پر تُل گئے ہیں لیکن وہ جلدہی اپنے کام کانتیجہ جان لیں گے (فَکَفَرُوا بِہِ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ) (۷) ۔
یہ لاف وگزاف کی باتیں نہ کرو اورانپے آپ کوخدا کے مخلص بندوں کی صف میں شامل ہونے کے لائق شمارنہ کرو . تمہار ا جھوٹ واضح ہوچکاہے ہے اور تمہار ے دعوے کھوکھلے نکلے ہیں. قرآن سے بہتر کسی کتاب کاتصوّر نہیں ہوسکتااور کوئی مکتب اسلام جیسے تر بیتی مکتب سے بہتر نہیں ہے . لیکن اب تم خود ہی دیکھ لو کہ تم نے اس آ سمانی کتاب کاکس طرح استقبال کیاہے . لہذا اپنے کفرو بے ایمانی کے درد ناک انجام کے منتظر رہو ۔
۱۔ یہ آ یت اور اس سے پہلی آیت اوربعد والی آیت مشہور علماء کے قول کے مطابق ترکیب نحوی کے لحاظ سے اس طرح ہے ” ما “ ” ماتعبدون “ کے جملہ میں ” ماء موصولہ “ ہے اوراس کاعطف ” ان “ کے اسم پر ہے اور” ما اٴَنْتُمْ عَلَیْہِ بِفاتِنینَ“ اس کی خبرہے اس قید کے ساتھ کہ ” ما اٴَنْتُمْ عَلَیْہِ“ کا” ما “ نافیہ ہے اور ” علیہ “ کی ضمیر خدا کی طرف لوٹتی ہے اوراس کامجموعی نتیجہ یہ بنتا ہے۔
انکم واٰلھتکم التی تعبد و نھالا تقد ر ون علی اضلال احد علی اللہ بسببھا الامن یحترق بنار الجحیم بسوء اختیارہ
بعض دوسرے علماء نے ” انکم و ما تعبدون “ کی آ یت کومستقل جملہ جانا ہے جس کا مفہوم یہ ہوگا کہ تم اپنے معبود وں کے ساتھ رہو . اس کے بعد والی آیت میں کہتا ہے کہ تم اس کے ذ ریعے کسی کو گمرا ہ نہیں کرسکتے مگرانہی کو جو خود دوزخی ہوناچاہیں ۔
مگر وہی جوخود یہ چاہتے ہیں کہ جہنم کی آگ میں جلیں (إِلاَّ مَنْ ہُوَ صالِ الْجَحیم) ۔
۲۔ بعض روایات جو اہل بیت علیہ السلام کے طریقے سے وارد ہو ئی ہیں ، میں یہ تفسیر بیان کی گئی ہے کہ اس سے مراد آ ئمہ معصومین علیہ السلام ہیں . ممکن ہے یہ تفسیر آئمہ کے مقام کی فرشتوں کے ساتھ تشبیہ کے عنوان سے ہو . یعنی جس طرح وہ معین و معلوم مقامات اور فرائض اورذمہ دار یاں رکھتے ہیں . اسی طرح ہم بھی ہیں ۔
۳۔ تفسیرقرطبی جلد ۸ ،ص ۵۵۸۱۔
۴ ۔ تفسیرقرطبی جلد ۸ ،ص ۵۵۸۱۔
۵ ۔ درالمنثور سے المیزن جلد ۱۷ ص ۱۸۸ پرنقل کیاگیاہے۔
۶۔ ” ان “ یہاں پر مثقلہ سے مخففہ ہے یہ تقد یرمیں اس طرح تھا ” و انھم کانوالیقولون “ ۔
۷۔یہ جملہ حقیقت میں ایک محذوف رکھتاہے اوراس کی تقد یر اس طرح ہے : ” فلمااتاھم الکتاب وھو القراٰن کفروا بہ فسوف یعلمون عاقبة کفرھم “ جب قرآن ایسی کتاب ان کے پاس آگئی تو انہوں نے اس کا انکار کردیا اور کافر ہوگئے .عنقریب انہیں اپنے کفر کاانجام معلو م ہوجائے گا ۔
سوره صافات / آیه 161 - 170ّسوره صافات / آیه 171 - 177
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma