بہشت کی نعمتوں کا ایک گوشہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 41 - 49گزشتہ آیات پر ایک نظر

گزشتہ بحث کی آخری آیت میں ” عِبادَ اللَّہِ الْمُخْلَصین‘ ‘ کے بار ے میں گفتگو ہوئی تھی . زیر بحث آیات ان بے شمار نعمتوں کو بیان کررہی ہیں جو خداان کو عطا فرمائے گا . ان نعمتوں کاسات حِصّوں میںخلاصہ کیا جاسکتاہے۔
پہلے قرآن کہتاہے : ان کے لیے معلوم ومعیّن روزی ہے (اٴُولئِکَ لَہُمْ رِزْقٌ مَعْلُومٌ ) ۔
کیایہ انھیںنعمتوں کاخلاصہ ہے جنکی بعد والی آ یا ت میںتشریح ہوئی ہے اور وہ انھی نعمتوں کو بیان کررہی ہیں جو یہاں سربستہ اور اجمالی طور پر بیان ہوئی ہیں ؟۔
یایہ ان نامعلوم اورناقابلِ توصیف نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جو نعمات ِ بہشت کاسر نا مہ بن گئی ہیں ؟
بعض مفسرّین نے اس کی پہلی صورت میں تفسیر کی ہے جب کہ بعض دوسروںنے اس کی دوسری صورت میں تفسیر کی ہے۔
بحث کی مناسبت اورنعمتوں کی جامعیّت دوسرے معنی کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے . اس طرح سے ان سات نعمتوں میں سے سب سے پہلے زیر بحث آیات میں بیان ہونے والی نعمتوں. معنوی نعمتیں،روحانی لذّتیں اورحق تعالیٰ کی ذات ِ پاکے جلووں کادیدار اوراس کے عشق کے باوہ ٴ طہور سے سرمست ہونا ہے وہی لذّت جسے دیکھے بغیر کوئی نہیں جانتا ۔
رہی یہ بات کہ قرآن کی آیات میںجنت کی نعمات توتفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں، لیکن معنوی نعمتوں اور روحانی لذّتوںبیان سربستہ اوراجمالی صورت میں کیاگیا ہے . تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی نعمات تو قابلِ توصیف تعریف میں . جبکہ دوسری تعریف و توصیف میں نہیں آسکتیں ۔
” رزق معلوم “ کے معنی کے بار ے میں اور بھی بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں. کیااس کاوقت معلوم ہے ؟ کیاوہ باقی اور ہمیشہ رہنے والی ہیں ؟کیااس کی تمام خصوصیات معلوم ہیں ؟اس ضمن میں ہم جوکچھ بیان کرچکے ہیں اس کی بنا پر کلمہ ” معلوم “ ایک سربستہ تعبیر ہے ان نعمات کی جن کی تعریف وتوصیف نہیں ہوسکتی ۔
اس کے بعد دوسری نعمتوں کابیان شروع ہوتاہے .سب سے پہلے قرآن بہشت کی نعمتوں کانام لیتاہے. نعمتیں بھی ایسی جو بہشتیوں کو انتہا ئی احترام کے ساتھ دی جائیں گی ، فر ماتاہے :ان کے لیے طر ح طرح کے پھل ہیں (فَواکِہُ ) ۔
اور وہ مکرم ومحترم ہیں (وَ ہُمْ مُکْرَمُونَ ) ۔
ان حیوانوں کی طرح نہیں جن کے سامنے ان کا چار ہ ڈال دیاجاتاہے ، بلکہ معزّز مہمانوں کی طرح انہتائی احترام کے ساتھ ان کی پذ یرائی ہوگی ۔
طرح طرح کے پھلوں کی نعمت اوراحترام و اکرام کے بیان کے بعد ، ان کی رہائش گاہ کاذکر ہوتا ہے . فر مایاگیاہے :ان کے ٹھہر نے کی جگہ بہشت کے سر سبز اور پر نعمت باغات ہیں (فی جَنَّاتِ النَّعیم) ۔
جونعمت بھی وہ چاہیں گے وہاں موجود ہے او ر جوکچھ وہ ارادہ کریں گے ان کے سامنے حاضر ہے۔
چونکہ انسان کے لیے عظیم ترین لذتوں میں سے ایک بے کلّف ، مخلص و باصفادوستوں کی محبّت بھری محفل ہے لہذا چوتھے مرحلے میں اس نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتاہے : وہ تختوں کے اوپر آ منے سامنے بیٹھے ہوں گے اور آنکھوں سے آنکھیں ملی ہوئی ہوں گی (عَلی سُرُرٍ مُتَقابِلینَ)۔
وہ ہر موضوع پر بات کریں گے . کبھی دنیامیں اپنے ماضی کے بار ے میں اور کبھی آخرت میں پروردگارکی عظیم نعمتوں کے متعلق ، کبھی خدا کے صفات جمال وجلال کی بات کریں گے اورکبھی اولیاء کے مقامات اوران کی کرامات کی اور دوسرے ایسے مسائل کے با ر ے میںجن سے ہم اس دنیا کے قیدیوں کے لیے آگاہی ممکن نہیں ہے۔
” سر ر“ ” سریر “ کی جمع ہے یہ ایسے تختوں کوکہاجاتاہے جن پرمجلس سروروانس میں بیٹھا کرتے تھے . بعض اوقات زیادہ وسیع معنی میں بھی اس کااطلاق ہواہے . یہاں تک کہ کبھی میّت کے تابوت کو بھی ” سریر “ کہہ دیا جاتاہے . شاید اس امید پر کہ وہ اس کے لیے خدا کی مغفرت اور بہشت جاوداں کی طرف جانے کے لیے ، سرور وخوشی کی سواری بن جائے ۔
نعمات جنت کے ذکر کے پانچویں مرحلے میں مشروبات اور شرابِ طہورکی بات ہورہی ہے ،فرمایاگیاہے : شراب طہور کے لبریز پیالےان کے گرد گھوم رہے ہیں اور جب بھی وہ ارادہ کرتے ہیں،پیمانے سے سیراب ہوتے ہیں اور نشاط ومعنویت کے عالم میں ڈوب جاتے ہیں (یُطافُ عَلَیْہِمْ بِکَاٴْسٍ مِنْ مَعین) ۔
یہ جام کسی گوشے میںپڑے ہوئے نہیں ہوں گے کہ وہ ان میں سے ایک جام کاتقاضا بلکہ ” یطاف علیھم “ کی تعبیر کے مطابق ، ان کے گرد گھمائے جار ہے ہوں گے ۔
” کاء س “ ( بروزن راٴس ) اہل لُغت کے نزدیک اس ظرف کو کہا جاتاہے جو پُر ا ورلبر یز ہو اور اگر وہ خالی ہو تو عام طور پر اسے ” قدح “ کہتے ہیں .راغب مفردا ت میں کہتاہے :
الکاٴس الا ناء بما فیہ من الشراب
کاس اس ظرف کو کہتے ہیں جوکسی پینے کی چیز سے بھراہوا ہو ۔
” معین “ ” معن “ (بروزن ”صحن “ ) کے مادہ سے، جاری کے معنی میں ہے . یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہاں شرابِ طہور کے چشمے جاری ہیں . جن سے ہر لمحہ پیمانے بھرسکتے اوراہل بہشت ک گرد اگروانھیں گردش دی جائے . ایسانہیں ہے کہ یہ شراب طہور ختم ہوجائے یااسے مہیّا کرنے کے لیے زحمت اٹھانا پڑے یاوہ پرانی ، خراب اور فاسد ہوجائے ۔
اس کے بعد اس شراب طہور کے برتنوں کی تعریف کرتے ہوئے قرآن کہتاہے: وہ مفید چمک دار ہیں اورپینے والوں کے لیے لذّت بخش ہیں (بَیْضاء َ لَذَّةٍ لِلشَّارِبین) ۔
بعض مفسرین نے ” بیضاء “ کو اس شراب کے ” ظروف“ کی صفت قرار دیاہے اوربعض نے خود ’ ’ شراب طہور“ کی صفت کہاہے یعنی یہ شراب دنیاکی خوش رنگ شرابوں کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی شراب ہے جو پاک ہے اور شیطانی رنگوں سے پاک سفید وشفاف ہے۔
البتہ دوسرامعنی ” لَذَّةٍ لِلشَّارِبین “ کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے۔
چونکہ شراب ، پیمانہ اور اس قسم کی چیزوں کا نام ممکن ہے کچھ اور مفاہیم کوذہنوں کی طرف دعوت دے اس لیے بعد والی آیت میںبلافاصلہ ایک مختصر اور واضح جملے کے ساتھ ان تمام مفاہیم کوسننے والوں کے اذہان سے ہٹا تے ہوئے قرآن کہتاہے :وہ شراب ِ طہو ر نہ تو فسادِ عقل کا سبب اور نہ ہی مستی کاموجب (لا فیہا غَوْلٌ وَ لا ہُمْ عَنْہا یُنْزَفُونَ ) ۔
اس میں ہو شیار ی و نشاط اور لذّتِ روحانی کے سواا ورکوئی چیز نہیں ہے۔
”غول “ (بروزن ”قول“ ) اصل میں اس فساد کے معنی میں ہے جوپنہاطور پرکسی چیز میں اُتر جائے اور یہ جوعربی ادب میں مخفی اور پوشیدہ قتل کو ” غیلة “ کہاجاتاہے تووہ بھی اسی لحاظ سے ہے۔
” ینزفون“اصل میں ” نرف “ ( بروزن ” حذف “ ) کے مادہ سے ، کسی چیز کو تد ریجی صورت میںختم کرنے کے معنی میں ہے یہ لفظ جس وقت کنوئیں کے پانی کے بار ے میں استعمال ہوتاہے تو اس کامفہوم یہ ہوتاہے کہ پانی کوتد ریجاً کنوئیں سے نکالیںیہاں تک وہ ختم ہوجائے .تدریجی طورپر خون نکلنے کے موقع پر بھی جوبدن کے سارے خون کے سارے خون کے گرانے پرختم ہو ” نزف الدم“ کی تعبیر استعمال ہوتی ہے۔
بہرحال زیر بحث آیت میں اس سے مرادعقل کاتد ریجاً ختم ہونااورسکرات کی حدتک پہنچ جاناہے ، جوجنت کی شراب ِ طہورپر تدریجی صورت میں انسان کے وجود میں اثر کرتی ہیں اور برائی اورخرابی پیدا کر تی ہیں ،نہ صرف عقل اور سارے اعصاب کوتباہ و برباد کردیتی ہیں بلکہ انسان کے بدن کی تمام مشینری کو دل سے لے رگوںتک اور معدسے لے کر جگر اور گردوں تک ایک ناقابلِ انکار تخر یبی اور تباہ کن تاثیر ہیں . گویاانسان کو اندرہی اند رخراب کر کے تباہ کر دیتی ہیں ۔
اس کے علاوہ شرابِ دینا انسان کے عقل و ہوش کو کنوئیں کے پانی کی طرح تبدریج کھینچتی ہے تاکہ اسے خشک اور خالی کردے ۔
لیکن خدائی شرابِ طہور قیامت میں ، ان تمام صفات سے پاک ہے ( ۱) ۔

إِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاٴَنْصابُ (مائدہ : ۹۰) ۔
اور کبھی شراب ِطہورپر جوخدا کے مخلص بندوں کاحِصّہ ہے مثلاً
وَ اٴَنْہارٌ مِنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبین( محمد : ۱۵) ۔
جوجنّت کی تعریف میں آ ئی ہے۔
آخر کار قر آن چھٹے مرحلے میں جنّت کی پاک وپاکیزہ بیویوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے : ان کے پاس ایسی بیویاں ہوں گی جو اپنے شوہروں کے سو ا کسی اور سے محبت نہیں کرتیں ،ان کے غیر کونگاہ تک اٹھا کرنہیں دیکھتیں اوران کی آنکھیں بڑ ی بڑی اورخوبصورت ہیں( وَ عِنْدَہُمْ قاصِراتُ الطَّرْفِ عین) ۔
”طرف“ اصل میں آنکھوں کی پلکوں کے معنی میں ہے اورچونکہ دیکھتے وقت پلکیں حرکت کرتی ہیں لہذ ا یہ لفظ دیکھنے کے لیے کنایہ ہے . اس بنا پر ” “ کی تعبیران عورتوں کے معنی میں ہے جونظر یں نیچی رکھتی ہیں. اس کی تفسیر میں کئی ایک احتمالذکر کیے گئے ہیںجوعلیحدہ علیحدہ ہونے کے باوجودسب مراد ہوسکتے ہیں ۔
پہلی تفسیریہ ہے کہ وہ صرف اپنے شوہر وں کی طرف ہی دیکھتی ہیں، اپنی آنکھوں کو ہر طرف سے ہٹا کر ، انھیں کو دیکھتی رہتی ہیں ۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ تعبیر اس بات کے لیے کنایہ ہے کہ وہ صرف اپنے شوہر وں سے محبت کرتی ہیں اوران کی محبت کے علاوہ ان کے دل میں کسی دوسرے کی محبت نہیں ہے یہ امر ایک بیوی کے لیے عظیم ترین امتیاز ہے کہ وہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی کو اپنے وہم وخیال میں بھی نہ لائے اوراس کے علاوہ کسی اور سے اسے پیار نہ ہو ۔
ایک اور تفسیر یہ ہے کہ ان کی آنکھیںخمار آلودمیں،وہی خاص حالت جوشعراء کے اکثر اشعار میں آنکھ کی ایک خوبصُورت تو صیف کے طور پر بیان ہوئی ہے ( ۲) ۔
البتہ پہلااوردوسرا معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتاہے اگرچہ ان معانی کوجمع کرنے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے۔
لفظ ” عین“ ( بروزن ” مین “ ) جمع ہے ” عیناء “کی جوبڑی آنکھ والی عورت کے معنی میں ہے۔
آخر میں آخر ی زیر بحث آیت،ان جنتی بیویوں کی ایک اورصفت کو بیان کرتے ہوئے ان کی کی پاکیزگی کو اس عبارت کیساتھ بیان کرتی ہے:ان کا بدن بہت زیادہ پاکیز گی،عمدگی ،سفیدی اورصفائی میںپرندے کے انڈوں کی طرح کہ جسے وانسانی ہاتھ نے چھواہو اور نہ ہی اس پر گر دغبار پڑا ہو،بلکہ وہ پرند کے پر و بال نیچے پوشیدہ رہے ہوں (بَیْضاء َ لَذَّةٍ لِلشَّارِبینَ)۔
” بیض “ جمع ہے ” بیضہ“ کی جو پرندے کے انڈے کے معنی میں ہے ( ہرقسم کاپرندہ ) اور” مکنون “ ” کن “ (بروزن ”جب“ ) پوشیدہ اور چُھپے ہوئے کے معنی میں ہے۔
قرآن کی یہ تشبیہ اس وقت ٹھیک طرح سے واضح ہوگی جب انسان ان لمحات میں جب انڈہ پرندے سے جداہو اور ابھی انسانی ہاتھ اسے نہ لگا ہو اور وہ ابھی پرندے کے پروں کے نیچے ہی پڑا ہو ، اسے نزدیک سے دیکھے کہ وہ کسی عجیب شفافیت رکھتاہے۔
بعض مفسرین نے ” مکنون “ کو پر ندے کے انڈے کے اندر موجود مواد کے معنی میں میں لیاہے جو اس کے چھلکے کے اندر چُھپاہواہے اورحقیقتاً
مذکورہ تشبیہ اس موقع کی طرف اشارہ ہے جب انڈے کو پکاکر اس کاچھلکا ایک ہی ساتھ جدا کردیاجائے تو اس حالت میں سفیدی اور چمک کے علاوہ ایک خاص نری اور لطافت بھی اس میں ہوتی ہے . بہرحال قرآن کی تعبیرات حقائق بیان کرنے میں اس قدر عمیق ،گہری اور معنی خیز ہیں کہ ایک مختصر سی تعبیرکے ساتھ بہت سے مطالب کو ایک لطیف انداز میں پیش کردیتی ہیں ۔
۱۔” فیھا “ اور ” عنھا“ کی ضمیر یں ” خمر“ کی طرف لوٹتی ہیں ، جو کلام میں مذ کور نہیں ہے لیکن سیاق کلام سے معلوم ہوجاتاہے اور ہم جانتے ہیں کہ لفظ ”خمر “ موٴنث مجاز ی ہے اور” عنھا “ میں” عن “ کی علت کو بیان کرنے کیلیے ہے یعنی وہ اس ” خمر “ کی وجہ سے مست اور محروم عقل وہوش نہیں ہوں گے یہ بات ذہن میں رہے کہ لفظ ” خمر “ ایک مشترک لفظ ہے جوکبھی تو مفسدہ انگیز اور عقل کوتباہ کرنے والی شراب کے لیے بولا جاتاہے :مثلاً
۲۔ ” روح المعانی “ جلد ۳۳ ،ص ۸۱۔
سوره صافات / آیه 41 - 49گزشتہ آیات پر ایک نظر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma