قرعہ اور اس کی مشرو عیت سے مربوط روایات میں امام صاد ق علیہ السلام سے منقول ہے :
ای قضیة اعدل من القر عة اذ افوض الامر الی اللہ عز وجل ،یقول :
فَساہَمَ فَکانَ مِنَ الْمُدْحَضین
قرعہ سے بڑھ کرعادلا نہ فیصلہ اورکون ساہو سکتاہے ( کہ جب معاملہ مشکل ہوجائے ) تو
موضوع کو خدا کے سُپرد کردیا جاء ، کیا خدا ( قرآن مجیدمیں یونس علیہ السلام کے
بار ے میں ) نہیں کہتاہے
” فَساہَمَ فَکانَ مِنَ الْمُدْحَضین“
(یونس نے کشتی
میںبیٹھنے والوں کے ساتھ قرعہ اندازی کی اور قرعہ یونس کے نام نکلا اور وہ مغلوب
ہوگئے ( 1 ) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب معاملہ مشکل ہوجائے اوراس کے حل کی اور کوئی دوسری
راہ موجود نہ ہو اورکام کو خدا کے سپرد کردیاجائے تو واقعاً قرعہ راہ کشا ہوتاہے .
جیساکہ حضرت یونس علیہ السلام کی داستان میں حقیقت پرٹھیک منطبق ہوا ۔
یہی مطلب ایک دوسر ی حدیث میں پیغمبر گرامی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے
زیادہ صراحت کے ساتھ بیان ہواہے . آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) فرماتے ہیں :
لیس من قوم تنا زعوا ( تقارعوا ) ثم فوضوا امرھم الی اللہ الاّ خرج سھم المحق
کسی قوم نے ( جب مسئلہ کے حل کی تمام راہیں مسدود ہوگئی ہوں ) قرعہ پراقدام نہیں
کیا جبکہ انہوں نے اپنے کام کو خدا کے سپرد کردیا ہو . مگر یہ کہ قرعہ حقیقت کے
مطابق نکلا اورحق آشکار وواضح ہوگیا ( 2) ۔
اس مسئلے کی مزید تشریح و تفصیل ہم نے کتاب ” القواعد الفقھیہ “ میں بیان کی ہے۔
1۔ تفسیر برہان جلد ۴ ص ۳۷ (حدیث ۶)
2۔وسائل ، کتاب القضاء جلد ۱۸ باب الحکم بالقرعة فی القضایا المشکتہ از ابواب کیفیتہ الحکم واحکام الد عویٰ (باب ۱۳ ) حدیث ۵۔