نوح (ع ) کی داستان کا ایک گوشہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 75 - 82کیا روئے زمین کے تمام لوگ نوح (ع) کی اولاد ہیں ؟

یہاں سے خدا کے نوعظیم پیغمبروں کی داستان کاذکر شروع ہوتا ہے . اس کی طرف گزشتہ آ یا ت میں اجمالی طورپر ذکر ہوا تھا ۔
سب سے پہلے شیخ الا نبیاء اور پہلے او لو العزم پیغمبر حضر ت نوح علیہ السلام کاذکر کیاگیا ہے ، پہلے ان کی اس پر سوز دعا کی طرف . جوانھوں نے اس وقت کی تھی جب وہ اپنی قوم سے مایو س ہوگئے تھے . اشارہ کرتے ہوئے فر مایاگیاہے : نوح نے ہمیں پکاراتو ہم نے بھی ان کی دعاقبول کرلی اور ہم کیسے اچھے قبول کرنے والے ہیں (وَ لَقَدْ نادانا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجیبُون) ( ۱) ۔
۱یہ دعا ممکن ہے اسی دعاکی کی طرف اشارہ ہو جو سورہ ٴ نو ح میں آ ئی ہے ارشاد ہوتاہے :
وَ قالَ نُوحٌ رَبِّ لا تَذَرْ عَلَی الْاٴَرْضِ مِنَ الْکافِرینَ دَیَّارا،إِنَّکَ إِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوا عِبادَکَ وَ لا یَلِدُوا إِلاَّ فاجِراً کَفَّارا
نوح نے کہا: پر وردگار ا ! کافروں میں سے کسی کو زمین پر نہ رہنے دے کیونکہ اگرتو انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دے گا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کردیں گے اوران سے فاجروں اور کافروں کے سوااور کوئی پیدا نہیں ہوگا ( وہ خود بھی فاسد ہیں اور ان کی آئند ہ نسل بھی فاسد ہوگی (نوح . ۲۶. ۲۷) ۔
یاوہ دعا جو آپ علیہ السلام نے کشتی پرسوار ہوتے وقت بار گاہ ِ خدا میں کی تھی ۔
رَبِّ اٴَنْزِلْنی مُنْزَلاً مُبارَکاً وَ اٴَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلین
پر وردگار ا ! تو ہمیں کسی پُر برکت منزل پر اتار نا اور تو بہتر ین منز ل عطا کرنے والا ہے ( موٴ منون . ۲۹) ۔
یاوہ دعا جوسُورہ ٴ قمر کی آیہ ۱۰ میں آ ئی ہے۔
فَدَعا رَبَّہُ اٴَنِّی مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ
نو ح علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے اس طرح دیاکی : ( پر وردگار ا ) میں اس قوم کے چنگل میں مغلوب ہوں میری مددفر ما ۔
البتہ اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ زیربحث آ یہ ان تمام دعاؤں کی طرف اشارہ ہو ا اور مر اد یہ ہو کہ خدا نے بہترین طریقے سے ان سب کو قبول فر مایا ۔
لہذا بعد والی آیت میں بلافاصلہ فر مایا گیاہے : ہم نے اسے اوراس کے خاندان کوعظیم غم سے نجات بخشی (وَ نَجَّیْناہُ وَ اٴَہْلَہُ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظیم) (۲) ۔
یہ غم واندوہ کیاتھا ، جس نے حضرت نو ح علیہ السلام کو ستارکھاتھا ؟
ممکن ہے یہ کافر و مغر ور قوم کی طرف سے مذاق اڑانے اورزبانی آز ار پہچانے اور آپ کی اور آپ کے پیر و کاروں کی ترہین کرنے کی طرف اشارہ ہو یااس ہٹ دھرم قوم کی طرف سے پے درپے جھٹلا نے کی طرف اشارہ ہو ۔
کبھی کہتے تھے :
قالُوا یا نُوحُ قَدْ جادَلْتَنا فَاٴَکْثَرْتَ جِدالَنا فَاٴْتِنا بِما تَعِدُنا إِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقینَ
اے نوح ! تو نے ہم سے بہت باتیں کرلیں (اورخُوب جھگڑ چکا ہے ) اگر توسچ کہتاہے تووہ عذاب جس کا تو وعدہ کیاکرتا ہے اسے لے آ ۔( ہود . ۳۲)
اور کبھی جیسا کہ قرآن کہتا ہے :
وَ یَصْنَعُ الْفُلْکَ وَ کُلَّما مَرَّ عَلَیْہِ مَلَاٴٌ مِنْ قَوْمِہِ سَخِرُوا مِنْہُ
وہ تو کشتی کے بنا نے میں مشغول تھا مگر جس وقت اس کی قوم کا کوئی گروہ اس کے قریب سے گزرتا تو اس کامذاق اڑاتا ( وہ کہتے کہ یہ شخص دیوانہ ہو گیاہے ) ۔ (ہود . ۳۸)
حضرت نو ح علیہ السلام باحوصلہ پیغمبرکوانہوں نے اس قدر پریشان کیا اور آ پ علیہ السلام کی اتنی بے ادبی کی کہ آپ علیہ السلام کو دیوانہ تک کہا ۔ آپ نے عرض کیا:
رَبِّ انْصُرْنی بِما کَذَّبُون
پروردگار ا ! ان کی تکذیب کے مقابلے میں میری مددفر ما ۔ ( موٴ منون . ۲۶)
بہرحال مجموعی طورپر ان سب نا گوار حوادث اورزبان کے شدیدزخموں نے ان کے پاکیزہ دل کوسخت پریشان کردیاتھا . یہاں تک کہ طوفان آ پہنچا اورخدا نے انھیں اس ستمگر قوم کے چنگل سے اس کرب ِ عظیم اوراندوہ ِ کبیرسے نجات بخشی۔
بعض مفسرّین نے یہ احتمال پیش کیا ہے کہ ” کرب ِ عظیم “ سے مراد وہی طوفان تھا، جس سے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے انصارو اصحاب کے علاوہ کسی نے نجات نہیں پائی ، لیکن یہ معنی بعید نظر آتاہے۔
اس کے بعد مزید ارشاد ہوتاہے :ہم نے نوح کی اولاد کو ( زمین پر ) باقی رہ جانے والا قرار دیا ۔ (وَ جَعَلْنا ذُرِّیَّتَہُ ہُمُ الْباقینَ)۔
وہ انھیں ایک ثابت قدم قیام کرنے والا،شجاع،بہت زیادہ صبر کرنے والا،دلسوز و مہر بان پیغمبر کے عنوان سے یاد کرتے ہیں اورانہیں شیخ الابنیاء کہتے ہیں ۔
ان کی تاریخ ثبات قدم،پامردی اوراستقامت کا ایک نمونہ ہے اوردشمنوں اور بے عقل کی سختیوں کے مقابلے میں ان کا طرزِ عمل راہ حق کے تمام راہیوں کے لیے الہام بخش ہے۔
عالمین کے لوگوں میں نوح پر سلام (سَلامٌ عَلی نُوحٍ فِی الْعالَمین ) ۔
اس سے برتر و بالا تر اور کون سا اعز ازو افتخار ہوگا کہ خدا وند ِ عالم ان پر سلام بھیجتا ہے . ایساسلام جو جہان اور جہان والوں کے درمیان باقی رہتاہے اور دامن ِ قیامت تک پھیلا دیاجاتا ہے . خدا کاسلام جو اس کے بندوں کی طرف سے ثنا ء ِ جمیل اور ذکر خیر کے ساتھ ملا ہوا ہے۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ قرآن میں اس وسعت کے ساتھ بہت کم سلام کس کے لیے نظر آتاہے . خاص طورپر یہ بات کہ ” العالمین “ ( اس بناء پر کہ جمع ہے اور الف و لام اس کے ساتھ ہے ) ایساوسیع معنی رکھتا ہے ، جونہ صرف انسانوں بلکہ ممکن ہے کہ فرشتوں اور ملکوت کے عوامل پر بھی محیط ہو ۔
اوراس غرض سے کہ یہ دوسروں کے لیے الہام بخش ہو . مزید فر مایاگیاہے : ہم اسی قسم کی جز ا نیکو کارو ں کو دیتے ہیں۔ (إِنَّا کَذلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنینَ ) ۔
چونکہ وہ ہمار ے صاحب ِ ایمان بندوں میں سے تھا (إِنَّہُ مِنْ عِبادِنَا الْمُؤْمِنین) ۔
درحقیقت مقام ِ بندگی اوراسی طرح ایمان جو احسان و نیکی کے ساتھ ہو جس کا بیان آخری دو آیات میں ہے . حضر ت نوح علیہ السلام کے لیے خدا کے لطف اوراندوہِ عظیم سے ان کی نجات اور ان پرخدا کے درود وسلام کی اصل وجہ تھی کیونکہ اگر یہی طرز ِ عمل دوسروں کا بھی ہو تو وہ بھی اسی رحمت اورلطف کے حق دار ہوں گے کہ جن کے نوح تھے ، کیونکہ پر وردگار کے الطاف کا معیار تخلف ناپذ یر ہے اور وہ کسی خاص شخص کے لیے نہیں ہوتا ۔
آخر ی زیر بحث آپ میں ایک مختصر او ر تیز جملے کے ساتھ اس ظالم شر یر اور کینہ پر ور قوم کاانجام بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے :پھر ہم نے دوسروں کوغرق کردیا (ثُمَّ اٴَغْرَقْنَا الْآخَرینَ ) ۔
آسمان سے بارش کاطوفان ٹوٹ پڑا اور زمین سے پانی ابلنے لگا اور سارے کاسارا کرہ ٴ ارض تھپیڑیں مارتے ہوئے سمندر میں بدل گیا ، اس نے ظالموں کے محل درہم برہم کردیئے اوران کے بے جان جسم صفحہ ٴ آب پر باقی رہ گئے قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ اپنے الطاف و اکرام کی بات تو اللہ تعالیٰ نے کئی آیات میں بیان کی ہے لیکن اس سرکش قوم کے عذاب کا بیان تحقیر و بے اعتنائی کے ساتھ ایک مختصر سے جملے میں تمام کردیا ہے ، کیونکہ موٴ منین کے افتخار ات اور کا میابیوں اوران کے لیے خدا کی مدد ونصرت کا بیان توضیح کاحق دار ہے اور سر کشوں کی حالت بے اعتنا ئی و بے پر واہی سے بیان ہونا چاہیے ۔
1۔” مجیبون “ صیغہ جمع ہے حالانکہ اس سے مُراد خدا ہے کہ جس نے نوح کی دعا قبول کی . اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات جمع کاصیغہ اظہار ِ عظمت کے لیے آ تاہے . جیسا کہ ’ ’ نادانا “ میں جمع متکلم کی ضمیر بھی اسی مقصد کے لیے ہے۔
۲۔ ” کرب “ مفر دات میں راغب کے قول کے مطابق ” اندوہِ شدید “ کے معنی میں ہے اور” عظیم “ اس معنی پر مزید تاکید کے لیے ہے۔
سوره صافات / آیه 75 - 82کیا روئے زمین کے تمام لوگ نوح (ع) کی اولاد ہیں ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma